کراچی (اسٹاف رپورٹر) فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے زیرِحراست سابق ڈائریکٹر محمد خان چاچڑ نے تحقیقاتی کمیٹی کے روبرو تہلکہ خیزانکشافات کیے ہیں۔ نیوز پاکستان ڈاٹ ٹی وی نے ایم خان چاچڑ سے تحقیقات کے آغاز کی خبر 16مارچ کو شائع کی تھی۔
ملاحظہ کریں : پیپلز پارٹی قیادت کے قریبی ساتھی محمد خان چاچڑ جیل سے نامعلوم مقام پر منتقل
پیپلزپارٹی قیادت کے قریبی ساتھی، فشریز کے گرفتار ڈائرکٹر محمد خان چاچڑ نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ سابق چیئرمین اسٹیل ملز سجاد حسین کے قتل حکم ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور نثار مورائی نے ستمبر 1998کو کیفے کلفٹن پر سلیم عرف سلو کے ذریعے بلوا کردیا، ڈیفینس فیز 8 میں فائرنگ کرکے سجاد حسین کو قتل کیا گیا تو انعام میں نثارمورائی نے چار لاکھ روپے انعام دیے۔ نومبر1998ء میں نثارمورائی نے وکیل عمران عزیز کو لاہور میں مارنے کا ٹاسک 5لاکھ روپے کے ساتھ دیا۔ 30 اپریل 1999ء کو لاہور میں ایڈووکیٹ عمران عزیز پر اس کے دفتر کے نزدیک فائرنگ کی تاہم عمران عزیز زخمی جبکہ اس کا منشی غلام مصطفی جاں بحق ہوا۔
محمد خان چاچڑ کے مطابق چیئرمین اسٹیل ملز سجاد حسین قتل کیس میں اسے ٹرائل کورٹ نے سزائے موت دی تھی لیکن اس نے ہائی کورٹ میں اپیل فائل کی اور وہاں سے بری ہوگیا، 2007ء میں جیل سے رہا ہوا تو دبئی بھجوادیا گیا جہاں 2009تک رہا، 2009میں واپس آیا تو نثار مورائی نے مجھے 5لاکھ روپے پر فشریز میں ڈائریکٹر بھرتی کرلیا۔
محمد خان چاچڑ نے مزید انکشاف کیا کہ زمینوں پر قبضے میں ارشد شاہ، فرید ابڑو، نثارمورائی، حضوربخش، بابر سندھو اور آفتاب پٹھان ملوث ہیں، کرپشن سے حاصل ہونے والی رقوم کو اومنی انٹرنیشنل کے ذریعے ماہانہ ایک سے چار کروڑ روپے اعلیٰ قیادت تک پہنچایا جاتا، ایرانی تیل کی اسمگلنگ سے حاصل رقم گینگ وار کے استعمال میں آتی تھی۔ ملزم محمد چاچڑ نے انکشاف کیا کہ نثارمورائی نےڈیفینس کی 27ویں اسٹریٹ پرگینگ وار کے کارندوں کے لیے سیف ہاؤس بنارکھا تھا جبکہ جرائم اور جرائم پیشہ افراد کے لیے ایک بنگلے پر قبضہ کررکھا تھا جہاں سلطان قمر صدیقی اور دیگر ڈائریکٹرز بھی موجود ہوتے اور وہاں زمینوں پر قبضے کے معاملات بھی حل کیے جاتے تھے۔
محمد خان چاچڑ نے بتایا کہ اس کے قریبی ساتھیوں میں سلیم عرف سلو، نادر خان مگسی، نثارمورائی، رانا شاہد، کامران عباسی، عمر جٹ،سلطان قمر صدیقی اور بابر سندھو شامل ہیں، جے آئی ٹی کے اراکین نے ملزم کو مشترکہ تفتیش کے بعد بلیک یعنی قصوروار قرار دیا ہے اور اس کے انکشافات پر مزید تفتیش کرنے کی سفارش کی ہے۔