کراچی (ڈیسک)کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) نے وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی توجہ 21 ستمبر2020 کو جاری ایس آر او 889 (I) / 2020 کی طرف مبذول کروائی ہے جس میں سیلز ٹیکس رولز 2006 میں ترمیم کی گئی ہے جو در حقیقت ظلم کی انتہا ہے۔ ایس آر او میں ایک نیا بابXIV-BA شامل کیا گیا ہے جس میں کئی صنعتوں میں ان کی پیداوار کی نگرانی کے لیے ڈیجیٹل مانیٹرنگ آلات اور وڈیو کیمرے بمعہ سینسرز نصب کرنے کا کہا گیاہے۔
کے سی سی آئی کے صدر شارق وہرا نے اس حوالے سے ردعمل میں کہا کہ اس طرح کے اقدامات ہی ناانصافی کا باعث بنتے ہیں کیونکہ صنعتکار پہلے ہی صنعتیں چلانے سے متعلق درپیش گھمبیر مسائل سے تنگ آچکے ہیں۔انہوں نے نشاندہی کی کہ بجلی،گیس کی لوڈشیڈنگ، تباہ حال انفرااسٹرکچر، پانی کی قلت، سیلز ٹیکس کی زائد شرح، ویلیو ایڈڈ ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی، ودہولڈنگ ٹیکس، خام مال پر کسٹمز ڈیوٹیز، اضافی کسٹمز ڈیوٹی اور ریگولیٹری ڈیوٹی کے علاہ مقامی اور صوبائی ٹیکسوں کی بھرمار کے باعث پہلے ہی صنعتوں کو زیادہ لاگت کا بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔مزید برآں قواعد و ضوابط اور پیچیدہ قوانین سے انڈسٹری میں نئی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
شارق وہرا نے زور دیا کہا کہ پاکستان میں انڈسٹری اب بھی ترقی کے مراحل میں ہے اور اس طرح کے قواعد کی تعمیل اور پیداوار کی نگرانی کے لیے افسران کو مامور کرنے کے تنازعے سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس طرح کے قواعد لازمی طور پر ہراساں کرنے اور بدعنوانی کا باعث ہوں گے۔ایس ایم ایز کے لیے نئے قواعد کی تعمیل کرنا خاص طور پر مشکل ہوگا جب ٹیکس کا پیچیدہ نظام ہو اور وسائل بھی محدود ہوں اورکرونا کے اثرات سے کاروباری اداروں کو بچانا پہلے ہی بہت مشکل ہو۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ فنانس بل 2020 کے ذریعے ٹیکس قوانین میں ترامیم اور ایف بی آر کے جاری کردہ قواعد و ضوابط میں ترمیم کے نوٹیفیکیشن اور ایس آر اوز ٹیکس دہندگان کو مزید نچوڑ ک کر رکھ دیں گے جو پہلے ہی ایک پیچیدہ اور جبری ٹیکس نظام کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ٹیکس امور کے ماہرین کے مشوروں اور ٹریڈ باڈیز کی تجاویز کے برخلاف بیوروکریسی تعمیل کو مشکل سے مشکل تر بناتی ہے جو ٹیکس کے دائرہ کا کو وسیع کرنے میں بڑی رکاوٹ کا سبب ہے۔
کے سی سی آئی کے صدر نے مزید کہا کہ ایف بی آر کے ٹیکس دفاتر اور فیلڈ فارمیشن حد سے زیادہ صوابدیدی اختیارات کے باوجود ٹیکس دہندگان کی تعداد میں کوئی قابل ذکر اضافہ ممکن بنانے میں ناکام رہے ہیں ماسوا ان کے جو مختلف ٹرانزیکشن پر لازمی ود ہولڈنگ ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہیں لہٰذا رجسٹرڈ افراد کی تعداد میں برائے نام اضافہ آر ٹی اوز یا فیلڈ افسران کی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل ایف بی آر نے انکم ٹیکس آرڈیننس میں نئی دفعات 56A / 56B شامل کرکے پاکستان کے تمام شہریوں کی ذاتی تفصیلات اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں تک بلاضرورت اور غیر محدود رسائی حاصل کرلی تھی۔ان لینڈ ریونیو کے افسران کو ٹیکس نیٹ میں نئے ٹیکس دہندگان کو لانے کے لیے اب تک اپنی اہلیت پر بھروسہ نہیں ہے اور وہ تجارت و صنعت کو مزید نچوڑنے پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرتے ہیں جو پہلے ہی قومی خزانے میں ایک بڑا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ریگیولیٹری رجیم میں زبردستی کے عنصر کی وجہ سے ملک بھر میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد 28لاکھ سے کم ہوکر24لاکھ ہوچکی ہے اور اگر صورتحال اسی طرح سے جاری رہی تو حکومت معیشت کو بہتر بنانے کی اپنی تمام تر کوششوں میں بری طرح ناکام ہو جائے گی۔
حقیقت میں یہ ادارے کی ناکامی ہے جو کئی دہائیوں سے آزمایا جا چکا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ حکومت ٹیکسوں کی موجودہ انتظامیہ کو ختم کرے اور ٹیکس و ریونیو وصولی کا مؤثر ٹیکس کلیکشن ماڈل اپنائے جو عدم مداخلت، کاروبار دوست، ٹیکس دہندگان اور ٹیکس وصول کرنے والوں کے درمیان اعتماد کے فقدان کو ختم کرنے کا باعث بنے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک طرف حکومت نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعمیراتی اورریئل اسٹیٹ سیکٹر کوایمنسٹی دی لیکن دوسری طرف عین متضاد پالیسی پر عمل پیرا ہے جو دیگر تمام صنعتوں کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔کرونا وباکے بعد عالمی معاشی سست روی کی وجہ سے سال 2020 میں ہونے والے نقصانات پر قابو پانے کے لیے کاروبار کو سہل بنانے اور آسانیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے لہٰذا صدر کے سی سی آئی نے وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ اور معاشی امور سے اپیل کی کہ وہ مداخلت کرتے ہوئے ایف بی آر کو ہدایت جاری کریں کہ وہ ایس آر او 889 (I) 2020 کے ذریعے نافذ کردہ اس طرح کے سخت قوانین کو واپس لے اور مذکورہ ایس آر او کو منسوخ کر دیا جائے جو صنعتی اور معاشی نمو کے متضاد ہے۔انہوں نے تجویز دی کہا کہ موجودہ تمام دفعات اور ان لینڈ ریونیو کے افسران کوحاصل صوابدیدی اختیارات پر نظرثانی کی جائے جو ٹیکس دہندگان کو ہراساں کرنے کے لیے غلط استعمال ہو رہے ہیں اور ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے میں رکاوٹ ہیں۔