اسلام آباد (ڈیسک) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس میں پی اے سی کے چیئرمین نورعالم خان کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان سنیٹر مشاہد حسین سید،سید حسین طارق، شاہدہ اختر علی، وجیہ قمر، سنیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا اور دیگر ارکان نے شرکت کی۔ اجلاس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے امور پر پی اے سی کو بریفنگ دی گئی۔
چیئرمین پی اے سی کے استفسار پر آڈیٹر جنرل نے بتایا کہ نیب کا آڈٹ ہوتا ہے۔ ڈی جی فیڈرل آڈٹ نے کہا کہ اس مرتبہ نیب کا بڑا جامع اورد ہرا آڈٹ کیا گیا ہے جس کی رپورٹ پی اے سی کو پیش کر دی گئی ہے۔ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ نیب نے جو ریکوریاں کی ہیں وہ رقم کہاں جمع کرائی گئی ہے۔ وزارت خزانہ نے صرف 15 ارب روپے کی تصدیق کی ہے۔ نور عالم خان نے کہا کہ قانون کا تقاضا ہے کہ جو رقم نیب ریکور کرتا ہے اس کا آڈٹ ہونا چاہیے۔ جس ادارے میں حکومت کے ایک روپے کا عمل دخل ہو اس کا آڈٹ ہونا چاہیے۔ سید حسین طارق نے کہا کہ نیب کی ریکوریاں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ پرائیویٹ ریکوریوں کہ رقم متاثرہ فریق کو دے دی جاتی ہے۔ نیب کے قائم مقام چیئرمین ظاہر شاہ نے کہا کہ تین قسم کی ریکوریاں ہوتی ہیں۔ نیشنل بنک میں ہمارا اکاؤنٹ ہے جب چاہیں اس کا آڈٹ کر لیں۔ اکاؤنٹ بعض رقوم ان کیسوں کی بھی پڑی ہے جن کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا۔ وہ رقم ہم کسی کو فیصلہ ہونے تک نہیں دے سکتے۔ 2008تک تمام رقم فیڈرل کونسیلی ڈیٹڈ فنڈ میں جمع ہوتی تھی مگر اس کے بعد قانون تبدیل ہوا۔ تمام رقم کرنٹ اکاؤنٹ میں پڑی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس رقم پر منافع سرکار یا متعلقہ فریق کو ملنا چاہیے۔ اس اکاؤنٹ میں سے ایک روپیہ بھی نیب نے خرچ نہیں کیا۔ ان ڈائریکٹ ریکوری کا مطلب یہ ہے کہ ملزم کی جائیداد ضبط کی جاتی ہے۔ مشتاق رئیسانی کی تین ارب روپئے کی جائیدادیں بلوچستان حکومت کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی بحریہ کی تحقیقات کا معاملہ سپریم کورٹ میں گیا ماہرین کی مدد سے 460 ارب روپے کی ریکوری کا فیصلہ ہوا۔ جیسے جیسے یہ رقم آئے گی ہم سندھ کی صوبائی حکومت کو ادا کرتے رہیں گے۔ نیب کو بجٹ وفاقی حکومت دیتی ہے جس کا باقاعدگی سے آڈٹ ہوتا ہے۔ اسلام آباد میں ضبط ہونے والی جائیداد بھی قانون کے تحت کابینہ ڈویژن کے حوالے کی جائیں گی۔ آڈیٹرل جنرل نے کہا کہ ہم نے آڈٹ کے تحفظات پر مبنی رپورٹ پی اے سی کو پیش کر رکھی ہے۔ اس رپورٹ کے نکات کو مد نظر رکھ کر پی اے سی امور کا جائزہ لے۔ چیئر مین پی اے سی نور عالم خان نے ہدایت کی کہ نیب کے نیشنل بنک میں پڑے ہوئے 800 ارب کا آڈٹ کیا جائے۔ شبلی فراز کے سوال کے جواب میں قائم مقام چیئرمین نیب نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون ساز ادارہ ہے ہم اس قانون کو چیلنج نہیں کر سکتے۔ نور عالم خان نے کہا کہ قانون میں نیب کی طاقت کم یا زیادہ کی گئی ہے اس پر بحث پارلیمنٹ میں ہو سکتی۔ قانون ایسا ہونا چاہیے جو کرپشن کو روکے نہ کہ اس کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جائے۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ نیب کے تمام ڈائریکٹر جنرلز اور اعلی حکام کے اپنے، والد،بیوی اور بچوں کے اثاثوں کے گوشوارے پی اے سی کو فراہم کئے جائیں اس کے علاوہ ان افسران ن کی تنخواہوں، مراعات اور عہدے کی مدت کی تفصیلات بھی ایک ماہ میں فراہم کی جائیں۔ یہ تفصیلات میڈیا کے ذریعہ عام کی جائیں گی۔ قانون سب کے لئے برابر ہے احتساب کے اداروں کا بھی احتساب ہوگا۔ اعلی عہدوں پر موجود حکام کو کردار کے لحاظ سے بھی صاف ہونا چاہئے۔ قائم مقام چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کے تمام افسران باقاعدگی سے اثاثوں کے گوشوارے جمع کراتے ہیں۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ نیب کو چاہیے کہ اگر کسی کے خلاف غلط کیس بن جائے تو اس کو معذرت کا خط بھی لکھنا چاہیے۔ پی اے سی کو نیب کی بریفنگ میں بتایا گیا کہ نیب نے مختلف مدات میں نومبر 2021اور دسمبر 2021تک 58 ارب سے زائد ریکوری کی ہے۔ جس میں پلی بارگین، جائیدادوں اور نقد ریکوریاں شامل ہیں۔ سید حسین طارق نے تجویز دی کہ ان ریکوریوں کا آڈٹ کرکے تصدیق کی جائے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ پی اے سی نے آڈیٹر جنرل کو ہدایت کی کہ ان ر یکوریوں کا آڈٹ کر کے تصدیق کی جائے۔