اسلام آباد (ڈیسک) ورلڈ بینک نے خبردار کیا ہے کہ مہنگائی، موسمیاتی تبدیلیوں، حالیہ سیلاب اور معاشی ابتر صورت حال کے باعث 60لاکھ پاکستانی غذائی قلت کا شکار ہیں۔
بینک کی طرف سے تیار کی گئی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مون سون میں سیلاب کی وجہ سے سیکڑوں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، ہزاروں پالتو جانور ، مویشی سیلاب کی نذر ہو گئے، لوگوں کی املاک تباہ جب کہ بڑے علاقے پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔
اچانک سیلاب سے بلوچستان اور سندھ کے علاقے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے، خیبر پختونخوا متاثر ہونے والا تیسرا بڑا صوبہ تھا۔ رپورٹ کے مطابق مذکورہ بالا عوامل کے باعث نہ صرف اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ دیکھا گیا بلکہ غذائی قلت اور خوراک میں واضح کمی رپورٹ کی گئی۔ سیلاب سے بڑے پیمانے پر لوکل انفرااسٹرکچر تباہ ہوا جس کو دوبارہ پائوں پر کھڑا کرنے کا ریاست کے پاس کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں۔ لوگ تاحال سڑکوں کے کنارے کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار بے آسرا موجود ہیں، وبائی امراض، مچھروں، پینے کے پانی کی قلت اور وائرل و موسمی بیماریوں سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔ مہنگائی کی شرح جو 2021میں 8فیصد تھی 2023میں 32فیصد پر آ گئی۔ اس طرح مہنگائی میں تقریباً 400فیصد اضافہ ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ملک میں کرپشن، معیشت میں عدم نمو کی کیفیت کے باعث مہنگائی میں دن بدن اضافے کا رجحان ہے، کھانے پینے کی بنیادی اشیا، آٹا، گوشت، دودھ، سبزیاں، پھل کی قیمتیں غیر معمولی طور پر عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو گئیں۔ معاشرے میں خود کشیوں کی شرح پہلے سے بڑھ گئی۔
عالمی بینک کی رپورٹ میںکہا گیا کہ جنوبی ایشیا کے خطوں میں کہیں معمول سے زیادہ اور کہیں معمول سے کم بارشیں ہوئیں جس سے سب سے زیادہ خوراک نظام متاثر ہوا، جس کے اثرات پورا ملک محسوس کر رہا ہے۔