رابعہ شیخ
ارض پاک میں جہاں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ملکی فوج سرتوڑ کوششیں کر رہی ہےوہیں پاکستان میں ایک اور گردی نے سر اٹھالیا ہے جس کے تحت ملک سمیت ملک میں رہنے والے شہری بھی محفوظ نہیں ہیں
اور جس گردی سے اب پاکستان متاثر ہورہا ہے وہ پولیس گردی ہے ،پولیس جسے عوام کا محافظ کہا جاتا ہےکیونکہ ریاست کے بنائے گئے یہ محافظ عوام کی جان ومال کی حفاظت کے ذمہ دار ہوتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں شہری دہشت گردوں سے ذیادہ اپنے ہی محافظوں سے خوفزدہ ہیں کیونکہ دہشت گرد تو کبھی کبھی اور چھپ کر وار کرتا ہےلیکن عوام کے یہ محافظ کھلم کھلا اور دن دہاڑے وار کرتے ہیں دہشت گردوں کے خلاف عوام بلا خوف سر اٹھا سکتی ہے لیکن ریاست میں عہدہ اوراور ریاستی حمایت رکھنے والےان کالی بھیڑوں کے خلاف سر کیسے اٹھا یاجائے ان کے خلاف مقدمہ کو کیسے جیتا جائے،ملک میں آئے دن پولیس گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے کہیں ان کی گاڑیوں سے ٹکر ہوجانے پر ،اور کہیں قانون کی وردیوں کا فائدہ اٹھاکر یہ باوردی مجرم شہریوں پر سرعام تشدد کرتے ہیں تو ساتھ ہی انھیں بنا کسی جرم قتل بھی کردیتے ہیں
ایک روز قبل انہیں محافظوں نے اسلام آباد میں پولیس ناکے پر گاڑی نہ روکنے کو وجہ بنا کر شہری تیمور کو سر پر تین گولیاں مار کر ہلاک کردیا ،ورثاء احتجاج کرتے رہے ،سر پیٹتے رہے لیکن پولیس اپنا کام دکھا کر فرار ہوچکی تھی اور پھر ہمارے سیاستدانوں نے میدان میں اتر کر مفاہمت پسند سیاست نباہتے ہوئے ورثاء کو تسلیاں دے کر احتجاج تو ختم کروادیا لیکن انصاف اب تک بھی فراہم نہ کیا جاسکا کچھ عرصےورثاء کی تسلی کے لئے مقدمہ تو چلایا جائے گا لیکن انصاف اور سزا دیئے بنا یہ مقدمہ بھی فائلوں کی زینت بن جائے گا اور پولیس گردی ایک بار پھر زروشور سے اپنے کام میں جت جائے گی ہمارے یہاں سڑکوں پر چلنے والی عوام کو جتنا ڈر لٹیروں سے ہوتا ہے اتنا ہی ڈر پولیس کے ملنے پر بھی ہوتا ہے کیونکہ دونوں صورتوں میں عوام کی جیب خالی کروالی جاتی ہے کہیں اسلحہ کے ذریعے تو کہیں عہدہ کے ذریعے،
بیرون ملک میں مقیم شہریوں کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی دشواری پیش آتی ہےتو پولیس سے رابطہ کرلیا جاتا ہے لیکن ہمارے جتنے بھی شہری ان کی قربت میں اگر ایک گھنٹہ ہی گزارلیں تووہ اپنی نسلوں کو بھی ان سے دور رکھنے کی ہدایت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں عوام اپنے ہی محافظوں سے خوفزدہ نظر آتی ہے ان پر عدم اعتمادی کا اظہار کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے جو کہ معاشرے میں بگاڑ کی ایک نئی صورتحال پیدا کررہی ہے جس طرح فوج دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے اپنا کردار ادا کر رہی ہے اسی طرح پولیس گردی کے خاتمے کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں اور ان ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ شہری سکھ کا سانس لیں