کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) حسن و عشق کے مدح سرا اور انقلاب کے منتظر احمد فراز کو دنیا سے رخصت ہوئے8 سال بیت گئے لیکن آج بھی اردو کی محفلیں ان کے تذکرے اور کلام بنا ادھوری ہیں۔
پاکستان کے مشہور شاعراحمد فراز 14 جنوری 1931 کو صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھاجبکہ تخلص فراز تھا۔ احمد فراز نے ابتدائی تعلیم کوہاٹ کےاسلامیہ ہائی اسکول اوراعلیٰ تعلیم پشاور سے حاصل کی۔ فراز کی شاعری میں بے باقی ، خوبصورتی اور ترقی کے باعث انھیں جنرل ضیاء الحق کے دورمیں 6 سال تک پابند سلاسل بھی رکھا گیا۔
احمد فراز کو اردو، فارسی، پنجابی سمیت دیگرزبانوں پر بھی مکمل عبور حاصل تھا۔ احمد فرازکے دلچسپ کلام میں خوبصورت نظمیں بھی شامل ہیں اوران کے شائع ہونے والے 14 مشہور مجموعہ کلام جن میں نابینا شہر میں آئینہ، پس انداز موسم، سب آوازیں میری ہیں، خواب گل پریشاں ہے، بود لک، غزل بہانہ کروں، جاناں جاناں اور اے عشق جنوں پیشہ،تنہا تنہا، دردآشوب، شب خون، نایافت، میرے خواب ریزہ ریزہ، بے آواز گلی کوچوں میں شامل ہیں۔ احمد فرازکی تصانیف کے تراجم بین الاقوامی زبانوں میں بھی شائع ہوئے جنمیں انگریزی، فرانسیسی، ہندی، یوگو سلاویہ، سویڈش، روسی، جرمنی شامل ہیں ۔
فراز کا بنیادی فلسفہ ہی محبت ہے۔محبت اور انقلاب سے شرابور فراز کی شاعری کا احساس کوچہ فن و ادب میں ہمیشہ زندہ رہےگا ۔ بےپناہ سیاسی وسماجی شعور کی جھلک فراز کی شاعری میں بھی صاف دکھائی دیتی ہےتلخ ایام میں بھی احمدفراز نے محبت کا درس دیتے رہے ۔
احمد فراز کو پاکستان کے بڑے اعزازات ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز، نگار ایوارڈز اور ہلال پاکستان سے بھی نوازا گیا، مختلف یونیورسٹیز اوردیگر تعلیمی اداروں میں ماہر تعلیم کے طورپربھی اپنے فرائض سر انجام دیتے تھے۔
تاہم ماضی کے عظیم نوحہ گر کڈنی فیلیئر کے باعث 25 اگست 2008 کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔