اسلام آباد (نیوز ڈیسک) وفاقی حکومت نے بانی پی ٹی آئی کے جیل میں کمرے کی تصاویر سپریم کورٹ میں پیش کر دیں۔
نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے۔
جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔
بانی پی ٹی آئی اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے۔
اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی کے ویڈیو لنک پر سپریم کورٹ میں پیشی کے انتظامات کیے گئے۔
بانی پی ٹی آئی کو بیرک سے کورٹ روم منتقل کیا گیا۔
وفاقی حکومت نے بانی پی ٹی آئی کے وکیل تک رسائی نہ دینے کے بیان کی تردید کر تے ہوئے اضافی دستاویزات جمع کروا دیں، اضافی دستاویزات کے ساتھ بانی پی ٹی آئی کے اڈیالہ جیل میں وکلاء سے ملاقات کی تصاویر بھی شامل ہیں۔
حکومت نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنے والوں کی فہرست بھی سپریم کورٹ میں جمع کرواتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کا قید تنہائی میں ہونے کا مؤقف بھی غلط ہے۔
وفاقی حکومت نے بانی پی ٹی آئی کے جیل میں کمرے کی تصاویر سپریم کورٹ میں پیش کردیں۔
وفاقی حکومت نے کہا کہ عدالت مناسب سمجھے تو بانی پی ٹی کے بیان اور حقیقت جانچنے کے لیے کمیشن بھی مقرر کر سکتی ہے، بانی پی ٹی آئی کو جیل میں کتابیں، ایئر کولر، ٹی وی تمام ضروری سہولتیں فراہم کی گئیں۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی تحریری معروضات تیار کر لی ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ اپنی معروضات عدالت میں جمع کرا دیں، کیا آپ فیصلہ سپورٹ کر رہے ہیں؟
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ کو سپورٹ کر رہا ہوں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیا آپ کے مؤکل 90 روز کے ریمانڈ سے مطمئن تھے؟ نیب جس انداز میں گرفتاریاں کرتا تھا کیا وہ درست تھا؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب میں بہت سی ترامیم اچھی ہیں، 90 روز کے ریمانڈ سے مطمئن تھے نہ گرفتاریوں سے، جو ترامیم اچھی تھیں انہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔
بانی پی ٹی آئی کے سابق وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ دبئی لیکس اور جعلی اکاؤنٹس ہمارے سامنے ہیں۔
جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا ہم زخم ٹھیک کریں مگر وجہ نہ دیکھیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جو دلائل دینا چاہتے ہیں وہ دیں، باقی نوٹ کروا دیں، ہم پڑھ لیں گے، آپ بتائیں آپ کو کتنا وقت درکار ہو گا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں دلائل میں تین گھنٹے سے زیادہ وقت لوں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ اور جن اداروں، شخصیات پر نیب قانون لاگو نہیں ہوتا اس متعلق ترمیم نہیں کی گئی، پارلیمنٹ موجود تھی، قانون سازی کرسکتی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ صرف سیاسی احتساب چاہتے ہیں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ نیب ترامیم سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں، کیا آپ کو نیب پر مکمل اعتماد ہے، کیا آپ 500 ملین سے کم کرپشن پر بھی نیب کی کارروائی کے حامی ہیں۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ منتخب نمائندگان کے تعینات کردہ افراد بھی پبلک آفس ہولڈر ہوتے ہیں، فیصلے منتخب نمائندے کرتے ہیں، عمل درآمد بیوروکریسی، اتفاق نہیں کرتا کہ سیاستدان کرپشن نہیں کرتے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ رولز کے مطابق پرنسپل اکاؤنٹنٹ افسر ہی ذمے دار ہوتا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر کوئی سیکریٹری کرپشن سے انکار کرے تو سیاستدان کیا کر سکتا ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اگر سیکریٹری احکامات پر عمل کرے تو حکم دینے والا وزیر کیسے کرپٹ نہیں ہوگا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی، غیرقانونی حکم ماننے والا خود ذمے دار ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کرنے کی ضرورت ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ بیرون ملک سامنے آنے والی جائیدادیں ثبوت ہیں کہ کرپشن ہو رہی ہے، نیب ترامیم اس لیے کی گئیں کہ مخصوص سیاسی رہنما اس وقت سلاخوں کے پیچھے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صرف سیاست دانوں کو نیب کے دائرہ اختیار میں کیوں رکھا گیا یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔