You are currently viewing رشتے احساس کے

رشتے احساس کے

تحریر :اثناءخان

نر مین کی نظر یں گھڑی کی ٹِک ٹِک کر تی سوئی پر لگی تھیں ۔  12 بجنے کو تھے اور نر مین کے چھوٹے بہن،بھائیوں کی سرگوشیاں اچانک  بڑ ھنے لگی تھیں ۔ نر مین معمول کے مطابق کا لج جا نے کے لئے اپنا بیگ پیک کر رہی تھی کہ اچا نک 12 بجتے ہی ایک شو ر سامچ گیا ۔

 ہیپی بَرتھ ڈے ٹو یو           ہیپی بَر تھ ڈے ٹویو

ہیپی بَر تھ ڈے ڈیئر آپی       ہیپی بَرتھ ڈے ٹو یو

نر مین کے ہا تھوں میں ایک بڑا اساکا رڈتھماتے ہو ئے اسکے چھوٹے بھا ئی بہن گیت گُنگنُانے میں مصروف تھے۔  نر مین کے لئے یہ ایک خوشگوار احساس تھا اوروہ بہت پیا ربھر ی نظروں سے اپنے بہن بھا ئیوں کو دیکھ کر خو ش ہو رہی تھی ۔ نر مین کے والدین اُسکو لمبی عمر کی دعائیں دینے لگے ۔  نر مین کو اپنی اہمیت زیا دہ محسوس ہورہی تھی ۔ مو با ئل پر سالگر ہ مبارک کے پیغاما ت مو صول ہو رہے تھے جو اُسکے لئے  مسّرت کا با عث تھے ۔  وہ صبح خوشی خوشی کا لج گئی لیکن اُسکی  سہیلیوں کو اس با ت کا احساس نہ ہو ا کہ آج کا دن اسکے لئے کچھ خا ص ہے۔ اس نے خود بھی اپنی سہیلیوں کے سا منے اپنی خوشی کا اظہا ر نہیں کیا کیوں کہ وہ نہیں چا ہتی تھی کہ اُسکی سا لگر ہ اُسکی  سہیلیوں پر بو جھ بنے ۔  وہ اُن دونوں کے معاشی حالات سے بخوبی واقف تھی ۔ اور سالگر ہ کا معلوم ہو جا نے پر وہ دونوں تحفہ نہ دینے کے با عث نر مین کے سامنے شر مند گی کا اظہار کر تیں ۔  لہذا اسی وجہ سے نر مین نے اُنکے سامنے اپنی خوشی کا اظہا ر نہ کر نا ہی بہتر سمجھا۔  وہ تینوں معول کے مطا بق اپنی کلاس لینے کے بعد جب فا رغ ہو ئیں تو نر مین نے سو چا کیوں نہ ان دونوں کو اپنی سا لگر ہ کی خوشی میں ٹر یٹ دی جا ئے۔ لیکن وہ یہ بتا کر ٹر یٹ نہیں دینا چا ہتی تھی کہ آج اُسکی سا لگرہ ہے ۔ لہذا جیسے ہی نر مین نے کیفے چلنے کی با ت کی تو اُسکی ایک سہیلی نے جھٹ ایک بہا نہ تیا ر کر لیا” ارے ہاں نر مین یا د آیا مجھے اپنا کام مکمل کر نا ہے ۔  میں تو چلی ۔ “ساتھ ہی دوسری سہیلی جھٹ سے بو لی ”اوہو ۔ میں تو بھو ل ہی گئی تھی مجھے مِس سلمیٰ نے ایک کا م سے بُلایا تھا “۔ اتنا کہتے ہی وہ دونوں اپنی اپنی منزل کی جا نب روانہ ہو گئیں  جبکہ نر مین انہیں بلند آواز میں روکتی رہ گئی ”سنو میر ی بات تو سنو“ لیکن وہ دو نوں اُسکی بات ان سُنی کر کے نکل گئیں۔

نر مین کو یقین ہو چکا تھا کہ سارا اور کِر ن بلاوجہ کیفے جاکر پیسے خر چ کر نے کے خو ف سے کچھ کھانے پینے جا نا ہی نہیں چا ہتیں ۔ لہذا وہ خووبھی اپنے بیگ سےنا ول  نکال کر ایک کلاس کے با ہر دیوار سے ٹیک لگائے اپنے دونوں پیر پھیلاتے ہو ئے پڑھنے میں مصر وف ہو گئی ۔ ٹھنڈی ہو اکے جھونکوں سے اپنے اڑتےہو ئے بالوں کو  سمیٹتی ہو ئی وہ نا ول پڑھنے میں اس قدرمشغو ل ہو گئی کہ اُسکو اپنے آس پا س چلتی پھرتی اورہنستی  بو لتی لڑکیوں کی بھی خبر نہ تھی ۔ ابھی آدھا گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ اچانک سارا  اُسکی جا نب بھاگی بھا گی آئی اور اس سے مخاطب ہو ئی ۔ نر مین نے جو ں ہی چو نک کر اُسکی جا نب دیکھا تو سارا اُس سے کہنے لگی کہ وہ کمپیوٹر لیب میں بیٹھی اپنا اسائنمنٹ ہی تیار کر رہی تھی لیکن افسوس اُسکی فا ئل آگے کسی طر ح سینڈنہیں ہو رہی ۔ نر مین نے اُسکو تسلی دی کہ وہ پر یشان نہ ہو یہ کو ئی بڑا مسئلہ نہیں میں چل کر دیکھتی ہوں کہ ماجر اکیا ہے ؟ یہ کہتے ہو ئے نر مین ایک جھٹکے سے سارا کا ہا تھ تھا متی ہو ئی اُٹھی اور اُسکے ساتھ چل پڑی ۔ جیسے ہی وہ دونوں کمپیوٹر لیب کے قر یب پہنچیں سارا اچا نک سے نر مین کا ہاتھ کھینچتے ہو ئے اُسکو  ایک کلا س میں لے گئی ۔ جس میں خاصا اند ھیر اتھا ۔ اور سخت نظروں سے دیکھتے ہو ئے نر مین سےکہنے لگی ۔ ایک بات بتاؤ آخرتم سمجھتی کیا ہو اپنے آپ کو ؟ نر مین نے اچانک اُسکا بد لتا رویہ دیکھ کر پر یشا نی کے عالم میں اس سے پو چھا کیا  مطلب سارا ؟ میں سمجھی نہیں تم کہنا کیا چاہ رہی ہو ۔۔۔؟ سارا نے پھر اُسے تلخ انداز میں جو اب دیا کہ شاید تم ہمیں بے وقوف سمجھتی ہو نا ں ۔ لیکن تمہیں ابھی انداز ہ نہیں کہ یہ سب تمہاری بھو ل ہے ۔ نر مین اسکی ان سخت نظروں اور با توں سے عجیب سی  اُلجھن اور کشمکش کا شکا ر ہو گئی  اور روحانسی ہو کر اس نے اک با ر پھر پو چھا ۔ سارا کیا تم مجھے بتا ؤگی کہ آخر ہو اکیا ہے ؟ اچا نک ہی کِر ن نے کلاس میں موجود ڈیسک کے پیچھے سے خا مو شی کے سا تھ نکل کر تما م لائسٹس آن کر تے ہو ئے ایک زور دار آواز لگائی”سر پر ا ئز“اور یہ کہتے ہی کِرن اور سارا نے گیت گُنگُنانا شروع کیا ۔

            ہیپی بر تھ ڈے ٹو یو                 ہیپی برتھ ڈے ٹو یو

 ہیپی بر تھ ڈے ڈیئر نر مین             ہیپی بر تھ ڈے ٹو

چاروں طر ف رنگ بر نگی خو بصور ت جھنڈیوں اور غباّروں سے سجی یہ کلاس آج بالکل الگ ہی معلو م ہو رہی تھی ۔

سامنے ہی ایک چاکلیٹ کیک بھی مو جو د تھا جس پر چھ آٹھ مو م بتیاں جگمگا رہی تھیں ۔ کر ن اور سارا اپنے ہا تھوں میں ایک خو بصورت تا ج  تھامے جیسے ہی نرمین کے سر پر سجانے کے لئے اُسکی جا نب آگے برھیں ۔ سارا مُسکراتے ہو ئے کہنے لگی ۔ کیو ں نر مین کیسا لگا ہما را سر پر ائز؟ نر مین کی آنکھوں میں خوشی سے آنسوجھلملانے لگے ۔وہ بے یقینی کی کیفیت میں کچھ نہ کہہ سکی ۔ دونوں سہیلیوں نے نر مین کا ہا تھ تھام کرسالگرہ کا کیک کٹو ایا ، کھانے میں کِر ن اپنے گھر سے بر یا نی بنا کر لے آئی اور سارااپنے گھر کے بنے لذیذشامی کبا ب اور پراٹھے لے آئی سا تھ اِ ن دونوں نے ایک شا ندار تحفہ خلوص دل کے ساتھ نر مین کو دیا ۔ نر مین روھا نسی ہو کر اپنی دونوں دوستوں سے لپٹ کر رونے لگی ۔ کیوں کہ اُسکو بخوبی انذازہ ہو گیا تھا کہ اُسکی سہیلیوں نے اپنی حیثیت سے بڑ ھ کر اُسکی خوشی کے لئے یہ سب کیا ہے ۔آج جو رونق اِس کلا س میں دکھا ئی دے رہی تھی ایسی رونق تو کبھی اس سے پہلے بھر ی کلا س میں دکھا ئی نہ دی تھی ۔  اب نر مین کو وہ ساری با تیں سمجھ آنے لگی تھیں کہ پچھلے ایک ما ہ سے کر ن اور سارا لنچ نہیں کیا کر تی تھیں ۔ کیوں  کہ وہ دونو ں چھوٹی چھوٹی خواہشات کے لئے اپنا دل ما ر رہی تھیں ۔ اور کسطر ح اِن دونوں نے یہ پیسے اُسکی سالگر ہ کے لئے جمع کر کے اُس کو خوشی پہنچائی ہےاور اُسکو سچی دوستی کا احساس دلایا ہے ۔آج اِن دونوں نے یہ ثا بت کر دیا تھا کہ کسی کو خوشی دینے کے لئے صاحب حیثیت ہو نا ہی ضروری نہیں بلکہ یہ رشتے احساسات ، جذبا ت اور قربا نیوں سے ہی مضبو ط ہو تے ہیں ۔

نیوز پاکستان

Exclusive Information 24/7