اسلام آباد (ڈیسک) پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار کا پریس کانفرنس سے خطاب۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاک فوج اور اس کی قیادت کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلائی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ فو ج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جمہوریت اداروں کی مضبوطی، قانون کی بالادستی، بہترین ملکی مفاد کی کی ضمانت ہے۔ انھوں نے کہا کہ دشمن جو کام دہائیوں میں نہ کر سکا وہ کام اب بھی اس کو نہیں کرنے دیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رکھی جائے گی۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ استعمال نہیں ہوا، زیر بحث نکات پر بات نہیں کر سکتا، وہ کانفیڈینشل ہے۔
انھوں نے کہا کہ آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی وزیر اعظم ہاؤس گئے تو وہاں ان کے رفقاء بھی موجود تھے، اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی آپشن نہ دیا گیا، نہ ہی سامنے رکھا گیا۔ آپشنز اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے نہیں رکھے گئے تھے۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر 3 آپشن پر بات ہوئی۔ اسمبلیاں تحلیل کر کے انتخابات کرانا تیسرا آپشن تھا، وزیر اعظم نے کہا کہ پارلیمنٹری کمیٹی کااجلاس بلایا جائے گا۔
ڈی جی آئی ایس پی آ ر نے کہا کہ نیوٹرل وغیرہ کوئی چیز نہیں، ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، فوج مستقبل میں بھی اپنا آینی اور قانونی کردار ادا کرتی رہے گی، اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے کہ ہم نے سیاسی عمل میں مداخلت کی ہے تو سامنے لائے، موجودہ سیاسی عمل میں فوج کا کوئی کردار نہیں، ایٹمی پروگرام کو سیاست میں نہ لایا جائے۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ فوجی اڈوں کا کسی سطح پر مطالبہ نہیں کیا گیا، اگر مطالبہ ہوتا تو جواب یہی ہوتا۔ آرمی چیف نے بتا دیا تھا کہ ہم کسی سیاسی رہنما کے پا س نہیں جاتے۔ آرمی چیف نہ تو مدت میں توسیع طلب کر رہے تھے اور نہ ہی وہ قبول کریں گے۔ آرمی چیف اپنی مدت پوری کر کے ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ آرمی چیف 29 نومبر 2022 کو ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔ فوج سے متعلق بی بی سی نے انتہائی واہیات اسٹوری شائع کی۔
9 اپریل کو آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی کی ملاقات کی خبر جھوٹ ہے، 9 اپریل کو وہاں کوئی نہیں گیا۔ یہ واہیات خبر ہے
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہماراآئینی اور قانونی کردار ہے، اس کے تحت کسی بھی سیاسی معاملے میں دخل دینا نہیں چاہتے
جب بلایا گیاتھا اس وقت گئے تھے، بعد میں کوئی عمل دخل یا رابطہ نہیں ہوا۔
وزیر اعظم جب روس گئے تو تمام ادارے آن بورڈ تھے،ایک انٹرویو میں اڈے مانگنے پر وزیرا عظم نہ کہا تھا ایبسلیوٹلی ناٹ۔
سائفر در اصل دفتر خارجہ کی ڈومین میں ہوتے ہیں، یہ ٹاپ سیکرٹ ڈاکو منٹ ہوتے ہیں۔ سائفر جس دن آیا اسی دن آئی ایس آئی نے کام شروع کر دیا۔
سوشل میڈیا پر چلائی گئی مہم کے محرکات تک پہنچ چکے ہیں۔ مہم میں بیرونی ہاتھ بھی ملوث ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ڈیمارچ میں ڈپلومیٹک پروسیچر ہے، ڈیمارچ صرف سازش پر نہیں دیا جاتا، اس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ اعلامیہ میں صاف لکھا ہے کہ غیر سفارتی زبان استعمال ہوئی اس لیے ڈیمارچ کیا گیا،
فوج کسی کو این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں، عمران خان کی جان سے متعلق کوئی تھریٹ ہوا تو مکمل نظر رکھیں گے، پچھلے دنوں جو کچھ ہوا وہ آئینی اور پارلیمانی روایات کا حصہ ہیں۔ افواج پاکستان کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے، یہ پہلے کامیاب ہوئی ہے نہ آءندہ کامیاب ہونے دیں گے۔ ہ ہمارا آئینی اور قانونی کردار سیاست میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔ مارشل لاء کبھی نہیں آئے گا۔انھوں نے کہا کہ پمارا ایٹمی پروگرام کسی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ منسلک نہیں، پاکستان کی بقا صرف اور صرف جمہوریت میں ہے، ہمارا عدالتیں آزاد ہیں، پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور افواج پاکستان کی قوت ہیں۔ پاک فوج کے خلاف من گھڑت اور منفی خبریں تیزی سے پھیلاءی جا رہی ہیں، ان پر نظر رکھا حکومت کا کام ہے۔ انھوں نے کہا کہ سی پیک کی رفتار کم نہیں ہونے دیں گے۔
انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر مہم چلانے والوں کا ڈیٹا اداروں کے پاس آ چکا، پریس بریفنگ کا مقصد صورت حال سے آگاہ کرنا تھا۔ پاکستان کی داخلی و سرحدی سیکیورٹی مستحکم ہے۔ مسلح افواج اور ادارے کسی بھی قسم کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اتفاق کیا گیا کہ اداروں کا آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔ بہتر ہو گا ہم اپنے فیصلے قانون پر چھوڑ دیں۔