You are currently viewing ناسا کے روبوٹ اِن سائٹ کی مریخ کی سطح پر کامیاب لینڈنگ

ناسا کے روبوٹ اِن سائٹ کی مریخ کی سطح پر کامیاب لینڈنگ

پاسا ڈینا (ڈیسک ):خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کا روبوٹ ’’اِن سائٹ‘‘ مریخ کی سطح پر اتر گیا ہے اس مشن کی ڈیزائننگ سے مریخ پر لینڈنگ میں سات سال لگے ہیں اور 993 ملین ڈالر لاگت آئی ہے۔

فرانسیسی اور برطانوی ذرائع ابلاغ کے مطابق ناسا کی طرف سے مریخ کی سطح پر کامیابی سے اتارے جانے والے اس آٹھویں خلائی مشن کا مقصد مریخ کی ساخت اوراس کے معرض وجود میں آنے بارے تحقیق کے لئے معلومات فراہم کرنا ہے ۔ ان معلومات کے حصول کے لئے اس روبوٹ میں بے حد حساس زلزلہ پیما آلات موجود ہیں۔’’ان سائٹ‘‘ نے مریخ پر محفوظ لینڈنگ کے حوالے سے سگنل بھیجے جو زمین پر موصول ہوگئے۔اس موقع پر کیلیفورنیا میں واقع مشن کے کنٹرول روم میں موجود عملے نے بے حد خوشی کا اظہار کیا۔

ناسا کے رکن جم برائیڈن سٹائن نے خوشی کے اس لمحے کو حیرت انگیز دن قرار دیتے ہوئے بتایا کہ صدر ٹرمپ اور نائب صدر مائیک پنس نے ان سائٹ کی لینڈنگ کے مناظر ٹی وی پر دیکھے اور ناسا حکام کو فون پر مبارکباد دی ہے۔ان سائٹ مریخ کے ہموار الیسیئم پلینیشا نامی مقام پر لینڈ کیا ہے اور یہ سیارے کی سطع مرتفع کے قریب واقع ہے۔اس مقام کو بقول ناسا کے مریخ سیارے کی سب سے بڑی پارکنگ کہا جاتا ہے۔ان سائٹ نے لینڈ کرنے کے چند منٹ کے اندر اندر سیارے کے قدرتی مناظر کی پہلی تصویر واپس زمین پر ارسال کی جو کہ دھندلی تھی۔ یہ تصویر خلائی گاڑی کے اندر نصب کیمرے سے لی گئی تھی کیونکہ سیارے پر لینڈ کرنے کی وجہ سے اڑنے والی گرد کے نتیجے میں منظر زیادہ واضح نہیں دکھائی سے سکا تاہم پھر بھی روبوٹ کا ایک پاؤں، ایک چھوٹا پتھر اور افق کو دیکھا جا سکتا ہے۔

ناسا کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں ان سائٹ زیادہ اچھی کوالٹی کی تصاویر ارسال کرنا شروع کر دے گا۔مریخ پر خلائی گاڑیوں کی لینڈنگ کے ماضی کے تجربات کی وجہ سے ان سائٹ کے حوالے سے تشویش پائی جا رہی تھی کیونکہ یہ 2012 ء کے بعد مریخ پر اترنے والا پہلا روبوٹ تھا۔لینڈ کرنے کے وقت روبوٹ نے ہر لمحے اور ہر ایک میٹر کی صورتحال کے بارے میں رپورٹ واپس بھیجی اور یہ مریخ کی فضا میں گولی کی رفتار سے داخل ہوا اور اس دوران درجہ حرارت کو کنٹرول رکھنے والی چادر، پیراشوٹ اور راکٹ کی مدد سے اسے حفاظت سے مریخ پر اترنے میں مدد ملی۔ان سائٹ کو مریخ کے انتہائی سرد موسم میں اپنی بقا کے لیے اپنے سولر پینلز کھولنا ہوں گے جو کہ لینڈنگ کے وقت محفوظ رکھے گئے تھے۔روبوٹ کو مکمل طور پر توانائی پیدا کرنے والے نظام کو چلانا شروع کرنا ہو گا تاکہ خود کو سرد موسم سے بچا سکے اور اس کے ابتدائی کام مکمل ہونے کے بعد سائنس دانوں کی مکمل توجہ سائنسی تجربات پر ہو گی۔ان سائٹ ماضی میں سرخ سیارے پر بھیجے جانے والے روبوٹس سے منفرد ہے کیونکہ اس کے ساتھ دو بریف کیس سائز کے مصنوصی سیارے بھی مریخ کی فضا میں پہنچے ہیں۔

روبوٹ تحقیق کرے گا کہ آیا مریخ کا اندرونی ڈھانچہ زمین کے اندرونی ڈھانچے سے مماثلت رکھتا ہے یا نہیں کیونکہ سائنسدان تاحال اس بات سے لاعلم ہیں۔ان سائٹ کا ایک بازو انتہائی احتیاط کے ساتھ سائزمومیٹر سیارے کی سطح پر رکھے گا جس کا کام اس سطح کے نیچے موجود تہہ کی تحقیق کرنا ہوگا۔ یہ آلہ مریخ پر گرنے والے شہاب ثاقب کے سگنلز جانچ سکے گا جو کہ مریخ کے اندرونی ڈھانچے کے بارے میں معلومات فراہم کرے گا۔ یہ آلہ یہ بھی جاننے کی کوشش کرے گا کہ مریخ پر زلزلے آتے ہیں یا نہیں یعنی کہ یہ سیارہ ارضیاتی طور پر فعال ہے یا نہیں ماضی میں اس سے ملتی جلتی تکنیک زمین اور چاند کے اندورنی ڈھانچے کی تحقیق کے لیے استعمال کی جا چکی ہے جب اپولو کے خلا بازوں نے چاند پر زلزلوں کے حوالے سے معلومات جمع کی تھیں۔ان سائٹ کا حرارتی پروب ایچ پی 3 مریخ کی سطح پر پانچ میٹر نیچے تک جا کر یہ جاننے کی کوشش کر گا کہ اس سیارے کے اندرونی ڈھانچے سے کتنی توانائی خارج کی جا رہی ہے۔اس سے معلوم ہوگا کہ کیا مریخ چاند اور زمین جیسے اجرا رکھتا ہے اور اس بات کا بھی اندازہ لگایا جائے گا کہ مریخ وجود میں کیسے آیا۔ناسا حکام کے مطابق مشن کی کامیاب لینڈنگ سے 2030 ء کے عشرے کے وسط تک مریخ پر انسان بردار مشن روانہ کرنے کے امریکی منصوبے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔

(اے پی پی)