You are currently viewing خون کا رشتہ(قسط نمبر3)

خون کا رشتہ(قسط نمبر3)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خون کا رشتہ
تحریر :ابن آس محمد

میں ابھی یہاں سے نکل جاتا ہوں ۔ یہ بڑے لوگ ہیں گاؤں کے چوہدریوں سے ان کے تعلقات ہوتے ہیں ۔ ایسا نہ ہو، میں مشکل میں پھنس جاؤں ۔
“ٹھٹ…ٹھیک ہے …. واہگورو … خیر کرے …… لگتا ہے کوئی بڑی مصیبت آنے والی ہے ۔ ”
اسی وقت کوارٹر کا دروازہ ایک زور دار آواز کے ساتھ کھلا، بابا اور میجر انصاری بری طرح اچھلے ، دروازے میں ایک لڑکی کھڑی تھی۔کوارٹر میں دیا ٹمٹما رہا تھا۔ اس کی دھیمی روشنی براہ راست اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔
وہ لڑکی نہیں تھی۔ اسے محض لڑکی کہنا ا س کی توہین تھی۔ وہ تو ایک ایسی اپسرا تھی جو شاید بھٹک کر اس طرف آنکلی تھی ۔ میجر انصاری نے تصور میں بھی نہیں سوچا تھا کہ دنیا میں کوئی ایسی حسین و جمیل لڑکی بھی ہوسکتی ہے ۔ دیے کی دھیمیی روشنی میں اس کا چہرہ ہی نہیں پورا وجود روشن ہو رہا تھا ۔ بڑی بڑی کٹورا آنکھیں ، لانبے بال، بے حد نفاست سے ترشے ہوئے دبیز ہونٹ اور غصے سے تپتے ہوئے گلابی رخسار ۔ وہ چند لمحوں تک میجر انصاری کو گھورتی رہی پھر گرجتی ہوئی مگر نہایت میٹھی آواز میں بولی “ہونہہ ………… تو تم ہوبھولے !”
میجر انصاری نے فوراً اثبات میں سر ہلادیا ۔ اس کی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔ بابا کی رنگت زرد ہوچلی تھی۔ شاردا نے بابا کو گھورا “تم باہر جاؤ بابا ! پتاجی آئیں تو فوراً مجھے خبر کردینا۔ ذرا میں اس بھولے سے دو چار باتیں کرلوں۔ ”
بابا نے بے بسی سے بھولے کی طرف دیکھا ۔ شاردا نے یکبار گی دوبارہ اس کو گھورا تو وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔ شاردا نے ایک ڈھیلا ڈھالا پاجامہ اور اوپر ڈھیلی جرسی پہن رکھی تھی۔ میجر انصاری کھڑا ہوگیا۔ اس کی آنکھوں میں فکر کی پر چھائیاں تھیں۔ شاردا چندلمحوں تک اسے گھورتی رہی ، پھر ذرا نرم لہجے میں بولی “بیٹھ جاؤ ! اور سچ سچ بتاؤ …… کون ہو تم ؟”
میجرانصاری کی آنکھوں میں الجھن تیر گئی ۔ اس نے بولنے کو منہ کھولا مگر شاردا تیزی سے بولی ” وہ کہانی مت سنانا ، جو چوکیدار نے سنائی ہے ۔ میں جانتی ہوں تم بھولے نہیں ہو ، بہت چالاک ہو ……… بھولے کے بھیس میں یہاں چھپے ہو۔ ”
میجر انصاری نے ایک طویل سانس لی ، مگر اتنی آسانی سے اس ہوشیار لڑکی کی چال میں آنے والا نہیں تھا۔ وہ سوچ سوچ کر دھیرے دھیرے بولا “شاید ! آپ کو کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے ۔ میر ا نام بھولا ہی ہے یہاں سے چار گاؤں پرے رہتاہوں چوہدری صاحب ……………”
شاردا نے اس کی بات کاٹ دی “بہت خوب ! یہاں سے پانچواں گاؤ ں …. میں وہاں کے چوہدری کو جانتی ہوں ……. کیا نام ہے ان کا بھلا؟”
اب میجر انصاری کو اندازہ ہوا شاردا نام کی یہ لڑکی محض لڑکی نہیں ۔ نفسیات کی ماہر کھلاڑی ہے ، وہ اطمینان سے بولا “چوہدری ………. گلاب سنگھ ………… فضل پور نام ہے میرے گاؤں کا۔ ”
میجر انصاری براہ راست شاردا کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بتارہی تھیں کہ وہ فضل پور کے چوہدری سے واقف نہیں ، اس کے ساتھ چال چل رہی تھی۔ اس نے انکار میں گردن ہلاتے ہوئے کہا۔
“تم جھوٹ بولتے ہو ۔ میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں … تم نے فضل پور کا صرف نام سنا ہے ۔ گلاب سنگھ نام کا کوئی چوہدری یہاں قریب کے کسی گاؤں میں موجود نہیں ….. اور تم بھی بھولے نہیں ہو۔ میں کھڑکی سے تمہیں چلتے پھرتے دیکھ چکی ہوں ۔ تمہاری چال سویلین کی نہیں … فوجی چال ہے ۔ ایک فوجی لاکھ بھیس بدل لے ۔ اپنی چال اور انداز سے مار کھا جاتا ہے ۔میں نے تمہیں ایک لمحے میں پہچان لیا کہ تم ………..”
میجر انصاری نے کچھ کہنا چاہا تو وہ ہاتھ اٹھا کر بولی۔ “خاموش …… میں جب بول رہی ہوں تو کسی کو بیچ میں بولنے کی اجازت نہیں ۔ میں شاردا ہوں۔ بھارتیہ انٹیلی جنس کی کیپٹن شاردا، میں اڑتے پنچھی کے پر گن لیتی ہوں ۔ تم نے جو دھوتی اور کرتہ پہنا ہے ، وہ بھی تمہارا نہیں ۔ چوکیدار بابا کا بیٹا ایشر سنگھ ان کپڑوں میں کئی مرتبہ یہاں آچکا ہے ۔ میرے سامنے سچ اگل دو………ورنہ………….. ”
اس نے بات ادھوری چھوڑدی ۔ میجر انصاری نے کہا “ورنہ کیا ……….؟”
ورنہ میرے ڈیڈی چند منٹوں میں تمہارے منہ سے اگلوالیں گے کہ تم اصل میں کون ہو، یہاں کیسے آئے اور یہ بھی بتادیں گے کہ تمہاری چتا جلانی ہے یا دفن کیا جائے گا ۔”
میجر انصاری نے کہا “میں آپ کو بتا چکا ہوں … میں بھولا ہوں۔ ایشر سنگھ کا دوست … اور …..”
شاردا پُھنکاری “ایشر سنگھ ………… ! وہ اس وقت ریسٹ ہاؤس میں بیٹھا ہے ۔ تم اپنا سچ اس کے منہ سے سننا پسند کرو گے یا …………؟”
میجر انصاری کی کھوپڑی میں دھماکے ہونے لگے ۔ خون کی روانی میں تیزی آگئی ۔ ایشر سنگھ کا نام سنتے ہی سمجھ گیا بازی پلٹ گئی ہے ۔ وہ دیہاتی ان صاحب لوگوں کے سامنے اس کا بھانڈہ پھوڑ چکاہے ۔ فوراً ایکشن میں آجانا چاہیے …….. مگر ایک لڑکی پر حملہ کرنا مناسب معلوم نہیں ہوا۔
وہ پُرسکون ہوتے ہوئے بولا ۔ ” ٹھیک ہے ۔ میں بھولا نہیں ہوں ۔ اب چھپانا بیکار ہے ۔ بتاؤ ! تم کیا چاہتی ہو ؟”
شاردا پُرسکون انداز میں بولی “ایشر سنگھ نے جو کچھ بتایا ہے وہ تمہارے منہ سے سننا چاہتی ہوں ۔ مجھ پر حملہ کرنے کی کوشش مت کرنا ۔ تم سمجھ سکتے ہو کہ اگر میں کیپٹن شاردا ہوں تو اس کا کیا مطلب ہے ؟”
وہ کمزور بدن کی لڑکی میجر انصاری کو واضح انداز میں جتانے کی کوشش کر رہی تھی کہ وہ ترنوالہ نہیں ہے۔ اگر اس پر حملہ کیا تو وہ بھی تر نوالہ ثابت نہیں ہوگی۔ اگر و ہ اس پر قابو پا بھی لیتا تو اس کے بعد اس کی مشکلات میں اضافہ ہوجاتا۔ اس نے دھیمے لہجے میں کہا۔
“ہاں ! میں ایک فوجی ہوں ………. پاکستان کا فوجی …. راستہ بھٹک کر اس طرف آگیا ہوں اور ..”
شاردا تعجب سے اس کی طرف دیکھنے لگی ۔ اس کا انداز ایسا تھا جیسے اس کی بات ا س کے لیے غیر متوقع ہو۔ یہ بات میجر انصاری نے بھی فوری محسوس کرلی ۔ اسے خود پر غصہ آگیا۔ اتنی جلدی اپنی اصلیت ظاہر کردینا بہت بڑی حماقت تھی۔ شاردا واقعی بہت ہوشیار لڑکی تھی۔ چوبیس سال سے زیادہ عمر کی نہیں لگتی تھی مگر اس کم عمری میں بھی لگتا تھا گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکی ہے ۔ اس کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ رینگ گئی ۔ وہ بدلے ہوئے لہجے میں بولی “مجھے صرف شک تھا ……… مگر ………… ”
اس کی بات ادھوری رہ گئی۔ اس وقت باہر جیپ رکنے کی آواز سنائی دی۔ میجر انصاری کے اعصاب تن گئے ۔ شاردا نے چونکتے ہوئے کہا “ڈیڈی ! واپس آگئے ہیں ۔ تمہاری کہانی بہت دلچسپ ہوگی ۔ اگر تم نے یہاں سے بھاگنے کی کوشش نہ کی تو ….”
میجر انصاری اس کی بات سمجھ نہ سکا۔ چونک کر بولا۔ “کک …….. کیا مطلب ؟”
شاردا نے جلدی جلدی اپنا جملہ پورا کیا “تم یہیں چھپے رہو۔ گھبرانے یا فرار ہونے کی کوشش مت کرنا۔ اس گاؤں سے باہر آرمی کے جاسوس جگہ جگہ موجود ہیں ۔ تم کہیں نہیں جاسکتے ۔ اب اس دھرتی پر بھگوان کے علاوہ کوئی تمہیں بچا سکتا ہے .. تو وہ صرف کیپٹن شاردا ہے ۔ تم یہیں رہو۔ میں کل صبح تم سے ملوں گی ”
وہ باہر نکلنے کے لیے دروازے کی طرف بڑھی دروازے کے قریب پہنچ کر گھومی اور بولی “میں نے کہا ہے بھاگنے کی کوشش مت کرنا۔ میرا کمرا اس کھولی کے عین سامنے ہے ۔میں کھڑکی کھلی رکھوں گی ۔ اگر تم یہاں سے نکلے تو میری نظرو ں سے بچ نہیں سکو گے ۔ میں فوراً شور مچا کر اپنے ڈیڈی کو ہوشیار کردوں گی ۔ ”
میجر انصاری نے الجھے ہوئے اندا ز میں کہا “مگر تم ایسا کیوں کر رہی ہو۔ میری اصلیت جان چکی ہو تو پھر ………… ” کیپٹن شاردا نے کہا “کل صبح بتاؤں گی ۔ تمہاری زندگی کی ضمانت اسی شرط سے جڑی ہے کہ تم اِدھر اُدھر جانے کی کوشش مت کرنا۔ ”
وہ باہر چلی گئی۔ میجر انصاری کی کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ وہ خالی الذہنی کی کیفیت میں چار پائی پر بیٹھ گیا ۔ سر پکڑ کر سوچنے لگا۔ کیپٹن شاردا نے اس کے ساتھ ایسا احسان کیوں کیا؟ کیا وہ واقعی کیپٹن ہے ؟ یا کوئی اور چکر ہے ؟
اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا تو چار پائی پر لیٹ گیا ۔ کچھ دیر بعد ایشر سنگھ کا بابا اندر آگیا۔ تشویش بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھتا رہا پھر بولا۔
“میرے تو پلے نہیں پڑا.. کیا چکر ہے وہ کہتی ہے کہ تم پر نظررکھوں ۔ تمہیں اِدھر اُدھر نہ ہونے دوں …… اگر تم غائب ہوگئے تو وہ مجھے اور ایشر کو جیل میں بند کرادے گی ۔ ”
میجر انصاری نے بابا کی طرف دیکھا ۔ پریشانی کی لہریں اس کے چہرے پر مچلتی نظر آرہی تھیں ۔ وہ بولا” تم فکر مت کرو بابا …….. میں کہیں نہیں جانے والا ………… یہیں رہوں ۔”
“مگر شاردا بی بی نے ایسا کیوں کیا ؟ کیا چاہتی وہ تجھ سے ؟”
یہ بات میری سمجھ میں بھی نہیں آئی۔ میرے گاؤں کے حالات پوچھتی رہی ۔ گاؤں کے چوہدری کا نام پوچھا اور یہ بھی پوچھا کہ میں یہاں کیوں چھپا ہوں؟”
بابا نے تڑپ کر کہا ” تو نے یہ تو نہیں بتا دیا کہ تو خون کر کے بھا گا ہے ؟”
میجر انصاری ہکا بکا اس کی شکل دیکھتا رہ گیا مگر اگلے ہی لمحے سمجھ میں آگیا کہ ایشر سنگھ نے اسے یہی بتایا ہوگا۔ چھپنے کی کوئی معقول وجہ اس کے سوا اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی تھی ۔ وہ ایشر سنگھ کی سمجھ داری کا قائل ہوگیا ۔ دھیرے سے بولا۔
“نابابا …….. میں ایسی بے وقوفی کرسکتا ہوں بھلا ………. میں اگر ایسا کہہ دیتا تو وہ کرنل کی بیٹی ہے ۔ پکڑوانہ دیتی مجھے ……….. ”
“تو پھر تو نے کیا کہا ؟” “یہی کہ چوہدری کے بیٹوں سے جھگڑا ہوگیاتھا۔ میں نے بات بڑھانا اچھا نہیں سمجھا ۔ گاؤں سے ادھر اپنے دوست ایشر کے پاس آگیا۔ چوہدری اور اس کے بیٹوں کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا تو واپس چلا جاؤں گا ۔”
“شاباش پُتر……… ! یہ تو نے ٹھیک کیا۔ اب میں چلتا ہوں۔ صاحب لوگ کہتے ہیں ۔ ساری رات باہر پہرا دیا کروں۔جنگ کا زمانہ ہے ۔ کوئی پاکستانی جاسوس اس طرف دکھائی دے سکتا ہے ۔ ویسے اور بھی لوگ ہیں جو ٹیلے کے دوسری طرف نگرانی کرتے ہیں ۔ ” بابا یہ کہہ کر چلا گیا۔
میجر انصاری سن ہوکر رہ گیا ۔ اس کا سامنا کسی سے نہیں ہوا تھا۔ اگر ہوجاتا تو س وقت پورے علاقے میں اس کی ڈھونڈ مچی ہوتی۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیا مگر شاردا کا معاملہ بھی عجیب تھا۔ وہ کرنل کی بیٹی تھی اور انٹیلی جنس میں کیپٹن کے عہدے پر فائز … وہ اس کی شناخت جان گئی تھی ….. لیکن اس نے اسے پکڑوانے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ اسی کوٹھری میں بندر ہنے کا حکم دے گئی تھی۔ نہ معلوم کیا چاہتی تھی وہ … عجیب الٹی کھوپڑی کی عورت تھی۔ چاہتی تو ایک لمحے میں گرفتار کراسکتی تھی… مگر شاید وہ ایسا چاہتی ہی نہیں تھی ۔ واقعی عورت کے دماغ میں کیا ہے ؟ کون جانتا ہے ۔ اس کے چاچا کہتے تھے عورت ایک الجھی ہوئی پہیلی ہے ، جسے سمجھنا مرد کے بس کی بات نہیں ، وہ کس وقت کیا سوچتی ہے ؟ کوئی نہیں جان سکتا ، کس وقت کیا چاہتی ہے کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔
میجر انصاری نے سوچا۔کہیں ایسا تو نہیں ۔ وہ خود کو اکیلی اور کمزور سمجھ کر اسے یہاں محض دھمکی دے کر چھوڑ گئی ہے ، اب اس کے ڈیڈی آگئے ہیں تو ان کے ساتھ آئے گی۔ مسلح افراد کو بھی ساتھ لائے گی، تاکہ میں کوئی گڑ بڑ نہ کر سکوں ۔ یہ بات ذہن میں سمارہی تھی مگر کافی دیر ہوگئی تھی۔ اسے گرفتار کرنے کوئی نہیں آیا۔ وہ فکر مند ہوکر کوٹھری میں ٹہلنے لگا۔ اسے امید تھی کہ جلد یا بدیر کوئی آئے گا۔ اس نے دورازے کی جھری میں جھانک کر دیکھا۔ عین سامنے ریسٹ ہاؤس کے کمروں کی پچھلی کھڑکیاں تھیں۔ ایک کھڑکی میں شاردا با ل کھولے کھڑی تھی۔ چاندنی میں اس کا چہر ہ ٹمٹما
رہا تھا۔ وہ کوٹھری ہی کی طرف دیکھ رہی تھی۔
میجر انصاری چار پائی پر آکر لیٹ گیا۔ رات نو بجے کا وقت ہوگا کہ بابا اس کے لیے کھانا لے آیا۔ ساگ ، بیسن کی روٹی اور لسی ………… کھانا کھا کر اس نے ڈکار لی ، بابا چلا گیا تو کوارٹر بند کر کے عشاء کی نماز پڑھی اور سب کچھ خدا پر چھوڑ کر سکون سے سو گیا۔
دوسرے دن دس گیارہ بجے کے وقت بابا اپنی سرخ سر خ آنکھیں سمیت آیا۔ وہ شاید ساری رات جاگتا رہا تھا۔ آتے ہی عجیب سے انداز میں بولا۔
“شاردا بی بی نے تمہیں بلا یا ہے ۔ وہ ریسٹ ہاؤس میں ہے ۔ کہتی ہے کھانا اسی کے ساتھ کھاؤ ۔”
میجر انصاری اچنبھے میں پڑگیا۔ شاردا کا رویہ بہت عجیب تھا۔ بابا سے پوچھا”کر نل صاحب بھی ہیں ؟”
“نہیں ۔ وہ صبح سویرے ہی قریب کے گاؤں گئے ہیں ۔ رات ایک پاکستانی فوجی پکڑا گیاہے ۔ راستہ بھٹک کر اس طرف آگیا تھا۔ سنا ہے زخمی ہے ۔ ”
میجر انصاری کے بدن میں سنسنی دوڑ گئی۔ وہ بابا سے نظریں چراتے ہوئے بولا۔ “چلو ! ”
بابا اسے ریسٹ ہاؤس کے مرکزی دروازے سے اندر چھوڑ کر چلا گیا۔ بولا “بی بی جی نے یہی کہا تھا۔ دھیان سے بات کرنا۔ خون والی بات غلطی سے بھی زبان پر نہ لانا۔ ”
میجر انصاری نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اندر داخل ہوا۔ بڑے سے صحن کے بعد ایک راہداری تھی جس کے دونوں طرف تین تین کمرے تھے ۔ پورے عمارت میں شاید اس وقت شاردا کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ وہ صحن کے سامنے چھپر کے نیچے میز کرسی کے پاس ایک کرسی پر بیٹھی تھی۔ گلابی ساڑی میں کسی اور ہی دنیا کی مخلوق لگ رہی تھی۔ اب میجر انصاری نے غور سے اس کی طرف دیکھا ۔ تو دل ڈولتا ہوا محسوس ہوا

Staff Reporter

Rehmat Murad, holds Masters degree in Literature from University of Karachi. He is working as a journalist since 2016 covering national/international politics and crime.