You are currently viewing احساس

احساس

تحریر :اثناءخان

اری زوہر اآپا ذرا پا س رکھے ہو ئے پیتل کے کٹو رے میں تھوڑا پا نی تو دینا ۔ میر اتو پیا س کے مار ے دم نکلا جا تا ہے ۔ زوہر ا آپا نے پا نی کا کٹو را دیتے ہو ئے کہاارے اَچھن آپا بھلا تمہیں کون کہے ہے کہ سینے پر ونے میں مشغو ل ہو کر رونے اور فا قے کی سے کیفیت طاری کر لو ۔ اچّھن آپانے سیر ہو کر پا نی پیا اور کہنے لگیں اب اس عمر میں کچھ زیا دہ کر نے کو تو ہے نہیں ۔ دل بہلانے کو کب تک تمھیں اپنی داستانیں سنا ؤں گی ؟ ایک وقت میں تو تمہارا بھی جی بے زار ہو جا وے گا ۔ اسی لیے سِلائی بنائی کر لیتی ہو ں کیوں کہ ساری عمر ہی کا م کا ج کر تے گزاری تو اب فارغ نہیں بیٹھا جا تا ۔ ہماری اما ں کہا کر تی  تھیں کہ عورت تو ہمیشہ کا م کر تی ہی اچھی لگے ہے ۔ مسہری پر بیٹھی عینک لگا ئے بٹو ہ سیتے ہو ئے اچھن آپازوہراآپا سے ہم کلا م تھیں ۔بلب کی زرد روشن کر نیں کمرے کے چا ر سُو پھیلی ہو ئی تھیں زوہر اآپا نے  میز سے پا ند ان اُٹھا یا اور مسہری پر بیٹھی پا ن لگا تے ہو ئے بولیں ۔ کیا بتا ؤں اچھن آپا میری اماں بھی مجھے یہی کچھ سمجھا یا  کرتی تھیں آج اتنی عمر گزار لینے کے با وجو د بھی امّاں کا  خیال با ر با ر دل میں آتا ہے اور اُن کی وہ سنہری با تیں بھی آج تک یا د ہیں ۔ لیکن افسو س! اللہ نے مجھے ایک بیٹادیا  وہ بھی پر ایا ہو گیا ۔اُس نے تو شہر جا کر آج تک اپنی ماں  کو پلٹ کر بھی  نہیں دیکھا اور وہا ں اپنی نئی دنیا بسالی یہ جا نتے ہو ئے بھی کہ اِسکی ماں طلا ق یا فتہ اور با لکل اکیلی ہے ۔یہ کہتے ہو ئے زوہرا  آپا کی آنکھیں نم ہو گیئں ۔ اچھن آپا سے دیکھا نہیں گیا ۔ ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔ عینک ہٹا  کر اپنے دوپٹے سے آنسوؤں کو صاف کر تے ہو ئے وہ زوہراآپا کو تسلی دینے لگیں اور بو لیں اری بہن تم ایسا کیوں سوچتی ہو کہ تم اکیلی ہو ۔ میں ہو ں نا تمہارے ساتھ میں ۔ اور میں بھی تو اکیلی ہی ہو ں اللہ نے مجھے تو نہ کو ئی اولا ددی ہے اور خاوندکو بھی اپنے پا س بلا لیا ۔ اگر تم نہ ہو تی میر ے پا س تو میرا یہاں اور کو ن رہ گیا تھا اب اگر ایسے وقت میں بھی ہم خالہ زاد ایک دوسرے کے کا م نہ آئیں تو پھر کس سے اچھی تو قع رکھی جا سکتی ہے ؟ دیکھ زوہر اآپا مجھے تمہا را ساتھ میں رہنا  بالکل  نہیں کھٹکے ہے ۔ تم ایسانہ سوچا کرو۔ بلکہ میں تو خو د خاوند کے چلے جا نے کے بعد سے فکر مند رہتی تھی کہ اب اکیلے باقی عمر کیسے کٹے گی ؟ لیکن صحیح کہتے ہیں کہ خدا تعا لی ایک در بند کر دیتا  ہے تو دوسرادرکھول دیتا ہے ۔ اب میرے دل  میں اطمینان  ہے اورڈھا رس بھی کہ خدا نے میرے بڑھا پے کے لئے ایک ہم جو لی میر ے نا م کر دی ۔ اری اچھن آپا تمھا ری انہی باتوں سے میر ادل مضبوط ہو جا تا ہے اور میں پھر سے سب کچھ بُھلا کر مطمئن ہو جا تی ہوں ، زوہر اآپانے تسلی بخش جو اب دیا ارے ہا ں !یا د آیا میں نے با ورچی خانے میں گر ما گر م کھیرپکا کر ٹھند ی کر نے کو رکھی تھی تیری  با تو ں نے تو زوہرا ایسا اُلجھا یا کہ مجھے یا د ہی نہ رہا ۔ یہ کہتے ہوئے اچھن آپاباورچی خا نے کی جا نب بڑ ھیں اور دواسٹیل کی کٹوریوں میں کھیرلے آئیں ابھی کھیر کھا ہی رہی تھیں کہ اچا نک لا ئٹ چلی گئی ۔ اچھن آپا بڑ بڑاتے ہو ئےبو ل پڑ یں یا اللہ!اس کم بخت لا ئٹ کو ابھی کیا ابھی جا نا تھا ۔ ارے اچھن آپا تم یہیں ٹھہر و میں ابھی لا لیٹن روشن کر دیتی ہو ں زوہر اآپانے لا لیٹن روشن کر کے محر اب کے بیچ میں لٹکا دی ۔ مسہری کے سرہا نے ہی ہا تھ سے جُھلنے والا پنکھا مو جود تھا ۔ اچھن آپا اپنے آپ کو اور زہرا آپا کو پنکھا جھلتے جھلتے سوگئیں ۔

ابھی رات کے 10 ہی بجے تھے لیکن اس گھر میں آدھی رات کا سما ں تھا صبح مر غے کے اذان دیتے ہی زوہر ا آپا کی آنکھ کھل گئی انھوں نے اچھن آپا کو بھی فجر کی نما ز کے لئے اُٹھا دیا ۔ نما ز سے فا رغ ہو کر اچھن آپا پھر سےبٹوہ  سینے بیٹھ گئیں ۔ زوہرا آپا  اُن سے پو چھنے لگیں اری اچھن آپا آخر یہ بٹوہ تم کس کے لئے سیتی ہو ؟اب تمہا ری کو ئی بہو تو آنے سے رہی اور نہ کو ئی بیٹی ہے جسے رخصت کر سکو ۔ ہا ئے زوہرا بس کیا بتا ؤں اگر بیٹی رخصت کر نی ہو تی یا بہو آنے کو ہو تی تو میں خود اپنے ہا تھ سے ایک ایک جوڑا بنا تی  اور ٹانکتی کسی درزن سے مد د نہ لیتی ۔ لیکن یہ خواہش تو دل میں ہی دبی رہ گئی ۔اس سے پہلے بھی میں نے دو اورخو بصو ر ت بٹو ے سئے تھے ۔ جو میں نے دو لڑکیوں کے نا م کر دیئے وہ دونوں عنقر یب رخصت ہو نے کو تھیں ۔میرے ہا تھ کے بنے ہو ئے بٹو ے ہمیشہ انکے لئے کا ر آمدثابت ہو نگے ۔ کیوں کہ یہ کو ئی عا م بٹو ے نہیں ہیں اس میں کچھ خاص ہے ۔ زوہرا آپا کہنے لگیں کہ چلو مان لیا کہ وہ دو بٹو ے تو تم نے ان دو لڑ کیوں کے نا م کر دیئے لیکن اب یہ بٹوہ اتنی خو بصور تی اُور نفاست سے تم کس کے لئے سی رہی ہو ؟ اچھن آ پا نے بتا یا کہ ایک روز چچااختر میر ے ہا ں آئے  تھے کہ انکے محلے کی ایک لڑکی کا بیا ہ ہو نے والا ہے ۔انکے گھر یلو حا لا ت کچھ ٹھیک نہیں ۔سا دگی کے ساتھ چند لو گو ں کی مو جود گی میں نکاح کر کے اُسے رخصت کر دیں گے تو یہ آخر ی بٹو ہ  میں اُ سی کے لئے تیار کر رہی ہوں  یہ کہہ کر اچھن آپا دوبارہ بٹوہ سینے میں مصر وف ہو گئیں ۔

دوپہر کے وقت دروازے پر دستک ہو ئی زوہرا آپا نے جیسے ہی  دروازہ کھو لا تو خالد سامنے ہی کھڑا تھا ۔خا لد انکے محلے کا نیک اور شریف لڑکا تھا جو کئی دن سے کا م کے سلسلے میں لا ہور گیا  ہوا تھا ۔ خا لد پڑھا لکھا اور ذمہ دار لڑکا تھا ۔ وہ اپنی شکل وصورت کے ساتھ ساتھ دل کا بھی اچھا تھا اور وہ ہر ایک کی عزت کر نا جا نتا تھا ۔ اچھن آپا اور زوہرا آپا اُسے دیکھ کر بہت خوش ہو ئیں خا لد نے دونوں سے خیر یت دریا فت کی اور اچھن آپا سےمخاطب  ہو کر کہنے لگا کہ میر ی شادی کی تا ریخ پکی ہو گئی ہے وہ اس خوشی میں مٹھا ئی  دینے آیا تھا ۔ اچھن  آپا یہ سُن کر بہت خوش ہو ئی اور اُسے دعائیں دینے لگیں ۔ زوہرا آپا نے بھی اسے بہت مبا رک  بات دی ۔ خالد نے جب اچھن آپا کو بٹو ہ سیتے دیکھا تو اس نے بے ساختہ پو  چھا کہ خا لہ کیا با ت ہے ؟ یہ ساری تیاری کس کے لئے ہو رہی ہے ؟ ارے کچھ نہیں بیٹھا فا ر غ تھی سوچا کہ کسی بچی کو سِی کر دے دوں گی ۔ خا لد نے مذاق میں کہا کہ خا لہ میر ی ہو نے والی بیگم کے لئے بھی پھر سینا پڑے گا ۔ اچھن آپا مُسکراتے ہو ئے کہنے لگیں ہا ں ہا ں کیو ں نہیں ۔ اسکو بھی سی دوں گی ۔ خا لد نے سنجید ہ ہو کر کہا کہ خالہ اگر آپ بُرا نہ ما نیں تو ایک با ت پو چھو ں اچھن خالہ کےاجا زت دینے پر خا لد نے ان سے سوال کیا کہ خا لہ آپکے گھر کا گزر کیسے ہو تا ہے ؟ اچھن آپا نے کہا کہ بس بیٹا اللہ بخشے میر ے سر تا ج کو جو یہ گھر رہنے کو چھوڑگئے اور ساتھ میں ایک دوکا ن بھی جس سے کر ایہ آجا تا ہے اور اُسی سے  آرام سے گزارہ ہو جا تا ہے خا لد بھی زوہرا آپا اور اچھن آپا کا بہت خیا ل رکھتا تھا وہ اکثر پھل وغیر ہ لے جا یا کر تا تھا جب وہ انکے گھر جاتا ۔ اچھن آپا اُسے اتنا احسان کرنے سے روکتی  پر وہ نہ ما نتا ۔ دو ہفتے بعد خالد کی شادی تھی ۔ خا لد سے اُسکے اپنے بھی تما م گھر والے خوش تھے وہ اپنے گھر والو ں کا بھی اُسی طرح خیا ل رکھتا تھا ۔ جب خالد کی شادی ہو ئی تو اُ س نے اپنی بیوی کلثوم کو بھی ہر ممکن طر یقے سے خو ش رکھنے کی کو شش کی اور اسکی خو ہشات بھی پو ری کیں لیکن کلثو م کو یہ با ت با لکل بر داشت نہ تھی کہ خالد کیو ں اچھن خا لہ کے گھر پھل مٹھا ئیاں  لےکر جا تا ہے ۔ وہ کئی با ر اُسے وہاں جا نے سے روکتی لیکن  وہ اسکو سمجھا بجھا کر اخلاقی طو ر پر کبھی کبھی اچھن آپا کے چلا جا یا کر تا تھا ۔ ایک روز اچھن آپا خا لد کے گھر کھیر دینے آئیں  تو انھوں نے کلثو م  کی کچھ با تیں سُن لیں  ۔ وہ غصے میں خالد سے کہہ رہی تھی کہ اچھن خالہ مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگتی ہیں اُسکویوں محسوس ہو تا تھا  کہ اچھن آپا اپنے گھر کا سارا خر چہ خالد سے اُٹھو اتی ہیں اور اپنا مال جمع کر کے رکھتی ہیں ۔ جب اچھن آپا نے یہ با ت سنی تو وہ اُلٹے پا ؤں واپس اپنے گھر چلی گئیں ۔ خا لد نے اُنھیں جا تے ہو ئے دیکھ لیا تھا ۔ وہ  بہت شر مند ہ تھا  ۔ اُس نے بعد میں اچھن آپا سے کلثوم کے غلط رویے پر  معافی بھی مانگی ۔ اچھن آپا نے خا لد کو سمجھا یا کہ انکے دل میں کلثو م  کو لے کر کوئی غلط بات نہیں ۔

کچھ دن بعد خالد اور کلثوم  دعو ت میں جا رہے تھے کلثو م نےاپنا نیا جوڑا پہنا اور ساتھ ہی اُس نے ایک نیا خو بصورت بٹو ہ بھی لے لیا ۔ جیسے ہی اُس نے بٹو ہ کھو لا تو اُس میں ایک سونے کی لو نگ مو جو د تھی وہ دیکھ کر چو نک اُٹھی کیو نکہ وہ اُسکی نہیں تھی ۔ لو نگ کے ساتھ ہی مو جود ایک کا غذپر لکھا تھا کہ پیا ری بٹیا ! تو سدا  خو ش رہے یہ بٹو ہ تیرے لئے میں نے اپنے ہا تھوں سے بنا یا ہے اور اس میں مو جو دسونے کی لو نگ بھی تیرے ہی لئے ہے  میری تو کو ئی بیٹی نہیں اسی لئے تجھے اپنی بیٹی سمجھ کر دے رہی ہوں ۔  میر ے پا س کُل تین سونے کی لو نگ تھیں جو میں نے تینو ں لڑ کیوں کو رخصت ہو تے وقت اسی طرح بٹو ے کے ساتھ ہی دے دی ۔ اُن میں سے ایک تو بھی ہے میں تجھے جا نتی تو نہیں لیکن میری نشانی تیرے پا س رہے گی ۔ میری دعا ہے کہ تجھے اچھا خاوند ملے اور کبھی کو ئی دُکھ تکلیف تیرے پا س نہ آئے ۔ تیری ہر آرزو پو ری ہو ۔ آمین

                                                                    نیک تمناؤں کے ساتھ

دعاگو

اَ چھن آپا۔”

یہ پڑھتے ہی کلثو م کی آنکھوں سے آنسوجا ری ہو گئے ۔ خالد نے جب کلثو م کی آنکھیں نم دیکھیں تو اُسے وجہ سمجھ نہ آئی  اس نے کلثوم کے ہا تھ میں مو جود وہ کاغذلے کر پڑھا تو خود بھی حیران رہ گیا ۔ یہ ایک عجیب اتفاق تھا ۔ کا غذپڑھ لینے کے بعد خا لد نے کلثوم کے ہا تھ میں بٹو ہ دیکھا تو یہ وہی بٹوہ تھا جو اس نے اچھن آپا کو خلو ص کے ساتھ اپنےہاتھ  سے سیتے دیکھا تھا ۔ اب کلثوم اپنے آپ سے بہت شرمند ہ تھی ۔ اُسکی آنکھوں میں آنسو جِھلملا رہے تھے اب اُسکو احساس ہو رہا تھا کہ وہ آج  تک اچھن آپا کے لئے کتنا غلط سوچتی رہی ۔ وہ اُسی وقت خالد کے سا تھ اچھن آپاکے گھر گئی اوران سےدل سے معافی مانگی اچھن آپا اُسے اپنے پا س بٹھا کر سمجھا نے لگیں  انھوں نے اُسے بہت پیا ر کیا اور معاف کر دیا ۔ اب کلثوم کے دل میں اُنکے لئے بہت قدر تھی ۔ اوروہ خالد کے ساتھ ساتھ خودبھی اچھن آپا اور زوہراآپا کا بہت خیا ل رکھتی اور انکی خد مت کر کے اُن سے خو ب دعائیں لیتی ۔ کلثوم کا دل اب بہت مطمئن تھا اور وہ ہر طرح خالد کے ساتھ  خوش رہنے لگی ۔

نیوز پاکستان

Exclusive Information 24/7