آج کا انسان
(سدرا کریم)
آج کا انسان ! کتنا چھوٹا سا جملہ ہے یا یوں کہوں کہ کہنے والے نے اس چھوٹے سے جملے میں طویل سی کہانی چھپادی ہے۔ جسے شاید ہی کوئی بمشکل سمجھ پائے۔ اصل میں آج کے انسان کو سمجھنا بے حد مشکل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ وہ گناہوں کے بوجھ تلے دبا ہوا لاچار سا ایک ایسا شخص ہے جسکی دین سے دوری تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی دنیا سے لگاؤ بھی ہے ۔
اگر میں بات کروں پہلے یا قدیم زمانے کےانسان کی تو اسے دنیا سے کوئی لگاؤ نہ تھا اور نا ہی دنیاوی چیزوں سے اسے محبت تھی بلکہ اسے تو صرف اپنے رب کی دی ہوئی نعمتوں سےعشق تھا۔ اس عشق کی مثال کچھ یوں دی جاسکتی ہے کہ وہ اسی سےمانگتا اور اس کے آگے سر تسلیم خم کر تا،اس میں کل کی فکر نہیں بلکہ وہ آج میں خوش و مطمئن رہنےوالا شخص تھا۔ وہ دو وقت کی روٹی کھانے والا اور چھوٹے سے مکان میں رہنے والا ایک آزاد بادشاہ تھا۔ جس کے دل میں زیادہ کی خواہش ضرور تھی لیکن اصراف کی لالچ نہیں۔ اسکے لیے سکون کی زندگی گزارنے کے معنی پیسہ نہیں بلکہ اپنے سے بندھے ہوۓ رشتے اور ناتے تھے۔ وہ ہر حال میں خوشیاں بٹورنا جانتا تھا۔
لیکن آج کا انسان یہ سب نہیں سوچتا اسکے لیے یہ ساری باتیں بے معنی ہیں۔ وہ تو صرف اتنا جانتا ہے کہ پیسہ ہی اسکے لیے سب کچھ ہے اگر وہ آج پیسہ کمالے گا تو کل اسکی زندگی سکون سے گزر سکے گی چاہے وہ پیسہ حرام یا غلط کام کرنے سے ہی کیوں نہ کمائے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ حرام کمانے والا کبھی چین کی نیند نہیں سوتا اور نا ہی سکون کی زندگی گزارتا ہے اسکے گھر میں کوئی نا کوئی مسائل ضرور پیش آتے ہیں جن سے وہ ہمیشہ پریشان رہتا ہے۔
پہلے کے وقتوں میں پیسہ کمانا جتنا آسان تھا آج کے دور میں اتناہی مشکل اور یہ مشکلات بھی انسان نے ہی بڑھائی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان جب زیادہ کی لالچ میں لگ جائے اور اسکی ضرورتیں خواہشات کی نذر ہو جائیں تو وہ حرام یا غلط کام کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور اسے غلط طریقے سے پیسہ کمانے کے لیے مجبور اور کوئی نہیں بلکہ اسکا ضمیر ہی کرتا ہے۔ وہ کسی کے بھی آگے سر جھکانے کو تیار کھڑا رہتا ہے۔ بس اسے یہ پتا ہوتا ہے کہ اسے اس کام کے پیسے ملنے ہیں اور جب وہ اتنی عقل رکھتا ہے کہ یہ غلط ہے تو اسکا مطلب صاف واضح ہے کہ پیسہ کمانے والا انسان بچہ نہیں ہوتا جو کسی کے بھی بہکانے سے بھٹک جائے اس میں عقل و شعور کی ہر گز کمی نہیں ہوتی بلکہ اس میں اگر کمی ہوتی ہے تو صرف دین سے دوری کی۔
ہمارے دین نے ہمیں حرام کمانے اور حرام کھانے سے سختی منع کیا ہے۔ انسان کی آسانی کے لیےسرکار مدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے 1400 سال پہلے ہی بتادیا تھا کہ
“اللہ تعالی نے اس جسم پر جنت حرام فرمادی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو”۔
لیکن آج کا انسان دنیا بنانے کے پیچھے آخرت کو بھول چکا ہے۔ وہ زیادہ کی حرص و لالچ میں اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ اسے اب دین و آخرت کی کوئی فکر نہیں وہ اب بس دنیا کو ہی اپنی اصل زندگی سمجھتا ہے جبکہ انسان کی اصل زندگی تو موت کے بعد شروع ہوگی۔ اگر آج کا انسان یہ بات سمجھ جائے کہ نصیب سے زیادہ اور نصیب سے کم ہر گز نہیں ملے گا تو اسکی زندگی بے حد آسان ہوجاۓ گی۔ وہ ہر حال میں خوش رہنے لگے گا۔ کیونکہ خوشیاں خریدی نہیں جاسکتیں۔