You are currently viewing یہ ہمارے اسپتال

یہ ہمارے اسپتال

ہمارے دماغ میں سب سے پہلے کیا آتا ہے جب ہم اس لفظ کو  سنتے ہیں “اسپتال”

ہمارے دماغ میں سب سے پہلے کیا آتا ہے جب ہم اس لفظ کو  سنتے ہیں “اسپتال” ایسی جگہ جہاں لوگوں کی جانیں بچائیں جاتی ہیں انہیں صحت یاب کیا جاتا ہے بس اتنا ہی تو جانتے ہیں ہم اس لفظ  کے بارے میں جو کہ پورا سچ نہیں ہے۔ ہمارے لیے اب سچ جاننا بہت اہم ہوچوکا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ چاہیے گورنمنٹ ہو یا پراویٹ اب ان ہسپتالوں میں لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھورہے ہیں۔وہ آتے تو ہیں اپنی زندگیوں کو بچانے کے لیے لیکن یہاں سے سفید چادر میں لپٹے ہوۓ واپس جاتے ہیں۔ اس بات کی واضح وجہ ڈاکٹرزاور ان کا نجی اسٹاف اور انکا نااہل علاج کے ساتھ جعلی دوائیاں ہی نہیں صرف ہماری گورنمنٹ بلکہ یوں کہاں جاۓ ہماری ناکام گورنمنٹ اور ان کے ساتھ جڑے کچھ ایسے ادارے ہیں جو بنے تو فلاحی کاموں کے لیے ہیں لیکن وقت آنے پر کام نہیں آتے اور بچی کچی کسر ہماری یہ عوام پوری کردیتی ہے۔

یہ ہماری ناکام گورنمنٹ اور یہ ادارےہی تو ہے جو ان ہسپتالوں میں خارجی ڈاکٹرز کو بنا لائسنس کے لوگوں کا علاج کرنے کے لیے بیٹھا دیتی ہیں۔ اتنا ہی نہیں ان ہسپتالوں کی فیسیس تو جیسے آسمان کو چھو رہی ہیں۔ پہلے یہاں کے ڈاکٹرز فیس جمع کروانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور پھر مریضوں کو ایسے جانچتے ہیں جیسے ان پر کوئی  احسان کر رہیں ہوں۔ ان کے لیے مریض کی چھوٹی سے چھوٹی بیماری کو بڑی سے بڑی بیماری بنانا تو جیسے دائے  ہاتھ کا کھیل ہو۔ اور ہماری عوام ان سب مسائل کو اپنی لاچاری سمجھ کر جھیل لیتی ہیں کوئی  قدم یا کوئی  آواز اس وقت تک نہیں اٹھاتیں  اپنے حق کے لیے جب تک ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش نہ آجائے ۔

یہ سارے مسائل پاکستان کے ہر شہر کے ہر بڑے سے بڑے اور ہر چھوٹے سے چھوٹے ہسپتال میں ہیں۔ جس کا شکار اس ملک کا ہر اعلیٰ طبقہ شہری اور ہر نچلے  طبقے کا شہری بن رہا ہے۔ ہماری گورنمنٹ کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی چاہئے کہ  ہوش کے ناخن لیں اور ان مسائل کو حل کرنے کے وسائل نکالیں۔ جیسے سب سے پہلے گورنمنٹ کا کام تو یہ ہے کہ ان نااہل ہسپتالوں کا خاتمہ بھی کریں جہاں سے زندہ انسان لاش بن کر نکلتا ہے۔ اورہمارا کام یہ ہے کہ کوئی  ایسا ادارہ قائم کریں جہاں ایک ایسی ٹیم تیار کی جائے  جو صرف ہسپتالوں کا جائزہ لے اور ان پر یہ نظر رکھیں کہ وہ اپنے کام کو ایمانداری کے ساتھ سرانجام دے بھی رہے ہیں یا نہیں یا صرف مریضوں سے فیسیس لے کر اپنی تنخواہ بٹور رہیں ہیں۔

اتنا ہی نہیں ہمارے یہاں جتنے فلاحی ادارے ہیں ان سب کو چاہئے  کہ وہ ہماری عوام کے لیے آگاہی پروگرام کا بھی بندوبست کریں تاکہ وہ ان معاملات کا سامنا طریقے کار سے کرسکےاور اپنے پیاروں کو موت کے منہ جانے سے بچایا جا  سکےاور ساتھ ہی معاشرے میں صحت وتندرستی کا سبب ممکن ہوسکے۔

 

(سدراکریم)

Staff Reporter

Rehmat Murad, holds Masters degree in Literature from University of Karachi. He is working as a journalist since 2016 covering national/international politics and crime.