کراچی (ڈیسک) پاکستان اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا، پاکستان کو ہر سال بیرونی قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی کے لیے بڑی رقم کا انتظام کرنا پڑتا ہے ، ایسی ہی صورت حال اندرونی قرضوں کی بھی ہے۔
قرضوں اور سود کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہونے پر ادائیگیاں ری شیڈول کروائی جاتی ہیں مگر یہ سارا عمل ملکی معیشت کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔
ری شیڈولنگ کے عمل کے دوران رقم کی ادائیگی کی مدت کا دوبارہ تعین کرنا، شرح سود اور ادا کی جانے والی رقم میں رد و بدل جیسے معاملات شامل ہوتے ہیں جن کے باعث ملکی بینکوں کو مقرر کردہ رقم سے کم سرمایہ فراہم کیا جاتا ہے۔
نجی مالیاتی ادارے کی مرتب کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال کے اختتام تک پاکستان کا اندرونی قرض 3.8ٹریلین روپے تھا، جو ملک کی جی ڈی پی کا 45فیصد اور کل قرض کا 53فیصد تھا۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں یہ قرض دگنا سے بھی زیادہ بڑھ گیا ہے، اب تک کل سرکاری قرض کا تخمینہ ساڑھے 52ٹریلین روپے لگایا گیا ہے جو جی ڈی پی کا ساڑھے 73فیصد بنتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مالی خسارے، غیر ملکی سرمایہ کاری کے انخلاء اور دیگر عوامل کی وجہ سے قرض لینے کی رفتار میں بے تحاشہ تیزی آئی۔
رواں مالی سال ملکی قرضوں پر سود ادائیگی کا حجم 5.6ٹریلین روپے لگایا جا چکا ہے جو ٹیکسوں کی مد میں آنے والی آمدنی کا 76فیصد بنتا ہے، باقی 24فیصد ٹیکس آمدن سے ملک کیسے چلے گا؟ یہ بات خود ایک سوالیہ نشان ہے۔