اسلام آباد: شریف فیملی کے کاروبار اور غیر ملکی اثاثوں کی تفتیش کرنے کے لیے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی حتمی رپورٹ 10 جولائی بروز پیر کو سپریم کورٹ میں جمع کروائی۔ سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کی نگرانی کے لیے تین رکنی خصوصی بینچ تشکیل دیا تھا جو جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تھا۔اس تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی پانچ مئی کو ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کو سونپی گئی۔
اس کے علاوہ تحقیقاتی ٹیم میں قومی احتساب بیورو، سٹیٹ بینک آف پاکستان، سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے نمائندوں کے علاوہ فوج کے خفیہ اداروں انٹر سروسز انٹیلیجنس اور ملٹری انٹیلیجنس کا بھی ایک ایک افسر شامل کیا گیا۔
اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے چھ مئی کو کام شروع کیا اور دو ماہ کے عرصے میں وزیراعظم نواز شریف ،ان کے بھائی وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، بیٹے حسین اور حسن نواز، بیٹی مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر، وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار، اور سابق وزیرِ داخلہ رحمان ملک سمیت 20 افراد سے تفتیش کی۔
اس کے علاوہ قطری شہزادے حماد بن جاسم کو بھی دو مرتبہ تحقیقات کے لیےبلایا گیا تاہم انھوں نے پاکستان آ کر یا قطر میں پاکستانی سفارتخانے میں جا کر بیان دینے سے معذرت کی اور تفتیشی ٹیم کو دوحا آنے کی دعوت دی۔
تفتیش کے دوران شریف فیملی سے پوچھے گئے سوالات
- مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو جن سوالات کے جواب حاصل کرنے کا کہا گیا تھا وہ کچھ یوں تھے
- میاں محمد شریف کی ملکیتی گلف سٹیل مل کیسے وجود میں آئی؛
- یہ ادارہ کیوں فروخت کیا گیا؛
- اس کے ذمہ واجبات کا کیا بنا؛
- اس کی فروخت سے ملنے والی رقم کہاں استعمال ہوئی؛
- یہ رقم جدہ، قطر اور پھر برطانیہ کیسے منتقل کی گئی؟
- کیا نوے کی دہائی کے اوائل میں حسن اور حسین نواز شریف اپنی کم عمری کے باوجودلندن فلیٹس خریدنے اور ان کے مالک بننے کی حیثیت رکھتے تھے؟
- حماد بن جاسم الثانی کے خطوط کا پاناما اسکینڈل کے فوراً بعد اچانک منظر عام پر آنا حقیقت ہے یا افسانہ؟
- حصص بازار میں موجود شیئرز فلیٹس میں کیسے تبدیل ہوئے؟
- نیلسن اور نیسکول نامی کمپنیوں کے اصل مالکان کون ہیں ؟
- ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ نامی کمپنی کیسے وجود میں آئی؟
- حسن نواز شریف کی زیر ملکیت فلیگ شپ انوسٹمنٹ اور دیگر کمپنیوں کے قیام کے لیے رقم کہاں سے آئی؟
- ان کمپنیوں کو چلانے کے لیے سرمایہ کہاں سے حاصل کیا گیا؟
- حسین نواز شریف نے اپنے والد میاں نواز شریف کو جو کروڑوں روپے تحفتاً دیے وہ کہاں سے آئے؟
اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ تحقیقاتی ٹیم نے شریف خاندان کی ایون فیلڈ میں موجود جائیدادکے بارے میں بھی تحقیقات کیں اور اس حوالے سے ایف آئی ای اور نیب کے پاس موجود ثبوتوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔
تحقیقاتی ٹیم نے اپنی حتمی رپورٹ اپنی گذشتہ تین رپورٹس کو مد نظر رکھتے ہوئے بنائی ۔گذشتہ رپورٹس 22 مئی، 7 جون، اور 22 جولائی کو سپریم کورٹ میں جمع کروائی۔ موجودہ حتمی رپورٹ 12 جلدوں پر مشتمل ہے۔
رپورٹ میں موجود 12 جلدوں کی تفصیل
باب اول: تفتیش کا خلاصہ
باب دوم: گواہان کے دلائل کا جائزہ
باب سوم: گلف اسٹیل ملز
باب چہارم: ایون فیلڈ پراپرٹیز کی ملکیت کی تفصیل
باب پنجم: قطری خطوط
باب ششم: ہل میٹلز اسٹیبلشمنٹ کی تفصیل/ تحائف
باب ہفتم: فلیگ شپ انویسٹمنٹ لمیٹڈ اور کمپنیز
باب ہشتم: نیب/ ایف آئی اے کیسز کی تفصیل
باب ہشتم (1): حدیبیہ ملز کیس
باب نہم: معلوم ذرائع آمدنی سے بڑھ کر ملکیت کی تفصیل: نواز شریف
باب نہم (1): معلوم ذرائع آمدنی سے بڑھ کر ملکیت کی تفصیل: دیگر ملوث افراد
باب دہم: دیگر ماملک سے قانونی معاونت کی درخواستیں: ( رپورٹ کا یہ حصہ ابھی “جاری ہے” قرار دیا گیا اور ٹیم کی جانب سے اسے عام نہ کرنے کی درخواست کی گئی۔)۔
تفتیش کا طریقہ کار
تحقیقاتی ٹیم نے سپریم کورٹ کے حکم پر مقررہ مدت (60 دن ) میں بنچ کی جانب سے مہیا کردہ 13 اور 2 سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے مختلف زاویوں سے تفتیش کی اور ملوث افراد کے غیر ملکی اثاثوں کی تفصیل حاصل کی۔
تحقیقات کا مقصد اثاثوں کی تفصیل اور ان سے متعلق ثبوت اکٹھا کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان واقعات کا ظہور اوراس میں ملوث افراد کی جانب سے سپریم کورٹ میں دیئے گئے دلائل کی تصدیق یا تردید کرنا تھا۔مندرجہ ذیل عوامل کے ذریعے تحقیقات کی گئیں:
ا۔ گواہان کے بیانات اور ثبوت جمع کرنا
ب۔ پاناما لیکس میں جن معاملات کا حوالہ دیا گیا ہے ان کا مختلف گواہان کے بیانات کے ذریعے توثیق کرنا۔
ج- دیگر ممالک سے ضروری معلومات کے حصول اورقانونی معاونت کی درخواست
د۔حکومت اور مختلف اداروں سے حاصل کردہ دستاویزات ، ٹیکس گوشواروں کا جائزہ
ذ۔ مہیا کردہ کاغذات کی ماہرانہ طرز پر چھان بین کرنا۔
ابتدائی منصوبہ سازی اور فیصلے
تحقیقاتی ٹیم نے اپنی ابتدائی بیٹھکوں میں کیس کی تفصیل اور حکمت عملی پر غور و خوض کرنے کے بعد مقررہ مدت میں تمام پہلوئوں کا تفصیلی جائزہ اور اہم معاملات کو بہتر طریقے سے سر انجام دینے پر اکتفا کیا۔مندرجہ ذیل تقاضوں کی جانچ کی گئی۔
ا۔ سکیورٹی پروٹوکول: ٹیم کے افرادکی جان و مال اور حاصل کردہ معلومات کی حفاظت کو یقینی بنانےپر پہلی بیٹھک میں ہی بات چیت کی گئی۔
ب۔ اس بات کو یقینی بنان کہ تحقیقاتی ٹیم کسی بھی بالا افسر کا دباو برداشت نہیں کرے گی اور آزادی سے کام کرے گی۔
ج: بیرونِ ممالک سے ثبوت اور معلومات حاصل کرنے مین کسی معیاری ادارے سے مدد حاصل کی جائے گی۔
د۔تفتیش کے مرحلے میں مدد کے لیے مختلف اداروں میں موجود ماہرین سے رجوع کیا جائے گا۔