You are currently viewing وفاقی جامعہ اردو، محمدعلی پٹھان کی کتاب طوفان میں جھونپڑی کی تقریب رونمائی

وفاقی جامعہ اردو، محمدعلی پٹھان کی کتاب طوفان میں جھونپڑی کی تقریب رونمائی

کراچی (ڈیسک) وفاقی اردو یونیورسٹی شعبہ سندھی کے زیر اہتمام محمد علی پٹھان کی اردو ترجمہ کی ہوئی کہانیوں کی کتاب ”طوفان میں جھونپڑی“ کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی جس میں سندھی اور اردو کے نامور ادیبوں، شاعروں اور استاتذہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سندھی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر عنایت حسین لغاری نے کہا کہ محمد علی پٹھان کے افسانوی مجموعہ طوفان میں 52 کہانیاں ہیں جن میں معاشرے کے دل کو چھونے والے اہم مسائل، لوگوں کے دکھ، درد، مظلومیت اور حساس موضوعات شامل ہیں۔ علم کو دوسروں تک پہنچانا علم کا صدقہ ہے جسے محمد علی پٹھان نے اپنی کتابوں کی صورت میں جاری کیا ہے۔ اردو کے نامور شاعر پروفیسر شاہد کمال نے صدارتی خطاب میں کہا کہ تخلیق ایک کل وقتی کام ہے، محمد علی پٹھان کے ہر لفظ اور کام میں ایک نئی تخلیق نظر آتی ہے، وقت اور لوگوں نے محمد علی پٹھان کی تخلیقات کو پہچانا ہے۔ ڈاکٹر شیر مہرانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ محمد علی پٹھان نے بے لوث ادبی خدمات انجام دی ہیں اور ان کی کہانیوں کے موضوعات سماج پر مبنی ہیں، انہوں نے واقعات پر لکھا ہے اور برے کرداروں کو بے نقاب کیا ہے، مشاہدات اور تجربات کی حقیقتوں کا احاطہ ہے۔ کرن سنگھ نے کہا کہ فن پارہ محمد علی پٹھان کی کہانیاں ںسماجی ہیں جن میں نئے اور پرانے موضوعات شامل ہیں، وہ ایک ترقی پسند مصنف ہیں۔پروفیسر یاسمین سلطانہ نے کہا کہ انھوں نے لیجنڈ مصنفہ کے ساتھ ڈرامے بھی لکھےہیں جن میں تہذیب، سماجی اقدار، ان دیکھے واقعات کی عکاسی ہوتی ہے۔ رفیعہ بخاری نے کہا کہ محمد علی پٹھان خود بھی لکھتے رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی لکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عابدہ گھانگھرو نے کہا کہ محمد علی پٹھان 28 سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ایسے کرداروں کو پوری پہچان ملنی چاہیے اور امید ہے کہ وہ اپنے تخلیق کاموں سے مزید روشنی پھلائیں گے۔ ضیاء ابڑو نے کہا کہ کسی کتاب کا اردو میں ترجمہ کرنا ایک مشکل عمل ہے، دیگر مصنفین کو بھی اپنی کتابیں اردو میں لانی چاہئیں تاکہ اردو بولنے والے بھی سندھ کے ثقافتی موضوعات کو سمجھ سکیں۔ محمد علی پٹھان کہانیوں میں جدید معاشرے کے اہم موضوعات کو سامنے لائے ہیں۔ انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ترجمے کا فن مشکل ہے جس کو ننگر چنا نے بخوبی نبھایا ہے۔ محمد علی پٹھان نے اپنی کہانیو ں میں کاروکاری کے گندے کاروبار کے ساتھ مجرمانہ سرگرمیوں پر بہت لکھا ہے، ان کی تمام کتابیں پڑھنے اور سمجھنے میں آسان ہیں۔ وحید محسن نے کہا کہ محمد علی پٹھان کی کہانیاں اہم پلاٹ اور کردار بھی ان کے اپنے معاشرے سے لیے گئے ہیں جو معاشرے کی نفساجت کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔ زبیر کلوڑ نے اپنے خطاب میں کہا کہ محمد علی پٹھان جدید کہانی کے کہانی کار کے ساتھ ساتھ ایک بہترین شاعر بھی ہیں۔ جدید کہانی کے عہد کا زبردست کہانی کار ہے۔ محمد علی پٹھان سماجی سائنسدان اور نقاد ہیں جو چیزوں کو سائنسی اندازسے دیکھتے ہیں۔ پروفیسر سلمان ثروت نے کہا کہ محمد علی پٹھان کی تحریریں اپنی دھرتی سے جڑی ہیں۔ ڈاکٹر جاوید شیخ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ترجمہ کا فن مشکل ہے جسے محمد علی پٹھان نے بخوبی نبھایا ہے۔ ان کی تمام کتابیں پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہیں۔ واحد سومرو نے کہا کہ دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ قلم کی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا ہے۔ اس نے دھرتی ماں کی جھولی میں 27 کتابیں رکھیں۔ سیما ابڑو نے کہا کہ محمد علی پٹھان نے شاعری کے ساتھ نثر میں بھی تاریخ رقم کی ہے۔ تقریب کے آخر میں سکندر علی بھنڈ نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔

نیوز پاکستان

Exclusive Information 24/7