واشنگٹن (ڈیسک)ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے مختلف ویریئنٹس کے پھیلاؤ سے افراط زر، قرضوں اور آمدنی میں عدم مساوات کی صورتحال کے باعث عالمی سطح پر اقتصادی شرح نمو آئندہ دوسال کے دوران سست روی کا شکار رہے گی۔
بینک کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون دنیا بھر میں تجارتی، اقتصادی و دیگر سرگرمیوں میں رکاوٹ بن رہی ہے،اس کے علاوہ مہنگائی،قرضوں میں اضافے اور لوگوں کی آمدنی میں عدم مساوات کی صورتحال ہے جس کی وجہ سے آئندہ دوسال کے دوران عالمی اقتصادی شرح نمو سست رہے گی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2021 کے دوران کورونا وائرس کے باوجود عالمی اقتصادی شرح نمو 5.5 فیصد رہی تاہم 2022 میں یہ کم ہوکر 4.1 فیصد اور 2023 میں 3.2 فیصد رہنے کا امکان ہے۔بینک کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم اپنے تیز پھیلاؤ کے باعث عالمی معیشت کو متاثر کرتی رہے گی اور اس کے نتیجے میں امریکا اور چین جیسی بڑی معیشتوں کی سست روی سے ان کی بیرونی طلب کم ہونے سے ان سے منسلک دوسری ابھرتی ہوئی معیشتیں بھی متاثر ہوں گی۔ ورلڈ بینک کے صدر ڈیوڈ ملپاس کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی عدم مساوات اور سلامتی کے چیلنجز بالخصوص ترقی پذیر ممالک کے نقصان دہ ہیں، عالمی معیشت کو بیک وقت کورونا وائرس،افراط زر اور پالیسی کی غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ زیادہ ممالک کو ترقی کے راستے پر ڈالنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر مربوط اقدامات اور جامع قومی پالیسی کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023 تک تمام ترقی یافتہ معیشتیں اپنی مکمل پیداوار شروع کردیں گی لیکن ابھرتی اور ترقی پذیر معیشتوں کی پیداوار کورونا وائرس سے قبل کی سطح سے چار فیصد کم رہے گی،تاہم کمزور اور تنازعات سے متاثرہ معیشتوں میں یہ دھچکا اور بھی شدید ہوگا جہاں کی اقتصادی شرح نمو وبا سے پہلے کی نسبت 7.5 فیصد کم جبکہ چھوٹے جزیروں پر مشتمل ریاستوں کی شرح نمو 8.5 فیصد کم رہنے کا اندیشہ ہے۔