اسلام آباد (ڈیسک) سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو قانون کے مطابق قرار دیتے ہوئے اسے فوری نافذ کر دیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کیس کے خلاف تمام درخواستیں مسترد کر دیں اور ایکٹ کو عین قانون کے مطابق قرار دے دیا۔
فیصلہ اکثریتی ججز کے دس پانچ کے تناسب سے سنایا گیا، فل کورٹ کے پندرہ ججز میں سے دس نے ایکٹ کے حق میں اور پانچ نے مخالفت میں فیصلہ دیا۔
چیف جسٹس نے فیصلے میں کہا کہ بینچ کے پانچ ججز نے اختلافی نوٹ دیا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن، منیب اختر، مظاہرنقوی، محمد شاہد وحید اور جسٹس عائشہ نے اختلافی نوٹ دیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت مختصر فیصلہ دیا جارہا ہے تفصیلی فیصلہ بعد میں سنایا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجز ایکٹ کا اطلاق ماضی سے کرنے کی شق کو غیر آئینی قرار دے دیا اور اس سے متعلق شق آٹھ ججز کی اکثریت نے مسترد کر دی
البتہ آرٹیکل 184تین کے تحت مقدمات کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دے دیا گیا۔
فیصلے میں عدالت نے کہا کہ 9،6 کی اکثریت سے قانون بننے کے بعد اپیل کا حق آئینی قرار دیا جاتا ہے۔
اپیل کا حق ماضی سے دینے کی حمایت کرنے والوں میں چیف جسٹس، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔
چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کے معاملے پر 10 پانچ کے تناسب سے فیصلہ کیا گیا۔
10ججز نے 184/3 کے لیے تین رکنی کمیٹی کے قیام کو درست قرار دیا، تین رکنی کمیٹی کی مخالفت کرنے والوں میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس مظاہر علی نقوی شامل تھے۔
جسٹس سردار طارق، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ نے ایکٹ کے ماضی سے اطلاق کی شق کو برقرار رکھا۔