You are currently viewing سویلینز کا ایسا ٹرائل نہیں ہوسکتا جو آئین کے مطابق نہ ہو، چیف جسٹس

سویلینز کا ایسا ٹرائل نہیں ہوسکتا جو آئین کے مطابق نہ ہو، چیف جسٹس

اسلام آباد(ڈیسک) فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائلز کے مقدمے میں چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ سویلینز کا ایسا ٹرائل نہیں ہوسکتا جو آئین کے مطابق نہ ہو۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس ملک کے ہر شہری کو تشویش ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل نہیں ہونا چاہیے، فوجی قانون عام قانون نہیں بلکہ بہت سخت قانون ہے۔
انھوں نے ہدایت کی کہ جب تک مقدمہ زیر سماعت ہے فوجی تحویل میں موجود سویلینز کو وہ تمام سہولیات دیں جو سویلین تحویل میں میسر آتی ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 9مئی کا واقعہ سنجیدہ جرم ہے، ملزمان کو چھوڑنے کی کوئی شخص بات نہیںکر رہا مگر ٹرائل قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔
اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل لطیف کھوسہ نے تجویز پیش کی کہ عدالت چاہے تو تو ملزمان کا ٹرائل انسدادِ دہشتگردی کورٹ میں کردیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ سویلین پر فوجی ایکٹ کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟
صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ میں لیاقت حسین کیس 1999 سے اصول طے ہے کہ آرٹیکل 83Aکے تحت فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا، عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں، کہ ملزمان کا براہِ راست تعلق ہو تو ہی فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے، سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
عابد زبیری نے دلائل دیے کہ بنیادی نقطہ یہ ہے کہ جو الزامات ہیں ان سے ملزمان کا تعلق کیسے جوڑا جائے گا، جو سویلینز افواج کی تحویل میں ہیں ان کا فوجی ٹرائل آئینی ترمیم کے بغیر نہیں ہو سکتا، پہلے سویلنز کا فوج یا دفاع کیخلاف تعلق جوڑنا ضروری ہے، اگر ملزمان کا فوج یا دفاع سے کوئی تعلق ہے تو پھر فوجی ٹرائل کیلئے آئینی ترمیم ناگزیر ہے، ملزمان کو سزاوں کیخلاف ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔
جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ آپ کے مطابق سویلنز کو آئینی تحفظ ہے اور فوجی ٹرائل کیلئے دفاع یا افواج کیخلاف ملزمان کا تعلق جڑنا ضروری ہے۔
عابد زبیری نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں یہ ٹرائل آئینی ترمیم سے ہی ممکن ہے، کچھ ملزمان کو چارج کیا جارہا ہے کچھ کو نہیں، اگر آپ نے خصوصی ٹرائل کرنا ہے تو آئینی ترمیم سے خصوصی عدالت بنانا ہی ہو گی، فوجی عدالتوں میں ٹرائل چلانے والے جوڈیشل نہیں،ایگزیکٹیو ممبران ہوتے ہیں، ٹرائل کے بعد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں جوڈیشل ری ویو ملنا چاہیے، 21ویں اور 23ویں ترامیم خاص مدت کےلئےتھیں، 21ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ نے اجازت تو دی لیکن سپریم کورٹ ہائیکورٹ میں ریویو کا اختیار بھی دیا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ میری استدعا ہے کہ فل کورٹ تشکیل دیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ نے خود ایک جج پر اعتراض اٹھایا، پھر آپ فل کورٹ بنانے کی استدعا کیسے کرسکتے ہیں، جب مقدمے کا آغاز ہوا اس وقت فل کورٹ بنانے کی بات کیوں نہیں کی، پھر آپ نے ایک جج پر اعتراض کردیا، اب آپ فل کورٹ بنانے کی استدعا کررہے ہیں۔
اس پر اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ دستیاب ججز پر مشتمل لارجر بنچ بنایا جائے۔ جسٹس منیب اختر نے جواب میں کہا کہ تمام دستیاب ججز اس وقت کیس سن رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ جب یہ مقدمہ سپریم کورٹ آیا اس وقت تمام ججز موجود نہیں تھے، جو ججز اسلام آباد میں موجود تھے سب سے بنچ میں شامل ہونے کا کہا، 2ججز نے کہا وہ بنچ میں نہیں بیٹھیں
گے، تین سماعتوں کے بعد وفاق نے ایک جج جسٹس منصور پر اعتراض کیا، جو میرے لئے حیران کن تھا۔