You are currently viewing سحری میں ڈھول بجا کر لوگوں کو اٹھانے کی روایت بتدریج معدوم

سحری میں ڈھول بجا کر لوگوں کو اٹھانے کی روایت بتدریج معدوم

فیصل آباد (ڈیسک) پاکستان کے مختلف شہروں میں روزوں کے دوران سحری کے وقت ڈھول بجا کر اٹھانا تقریبا ایک دہائی قبل تک خاصا مقبول تھا، اب یہ ثقافتی روایت بتدریج معدوم ہوتی جا رہی ہے۔
شہروں اور قصبوں میں رمضان المبارک کی سحریوں میں ڈھول بجا کر لوگوں کو اٹھانے والے اسے مذہبی عمل سمجھنے کے ساتھ ساتھ معاشی آسودگی کا ذریعہ بھی خیال کیا کرتے تھے، ایسے افراد میں زیادہ تر کا تعلق محلوں میں شادی بیاہ کے موقع پر ڈھول بجانے والوں سے ہوا کرتا تھا۔
اب روایتی موسیقی دم توڑتی جا رہی ہے اور یہ لوگ بھی کمیاب ہوتے جا رہے ہیں، یہ ڈھولچی رمضان کے بعد عید کے موقع پر اپنے علاقے کے گھروں پر جا کر مالی مدد کے طور پر عیدی کی صورت میں رقوم وصول کیا کرتے تھے۔
حالیہ کچھ عرصے سے سحری کے وقت لوگوں کو روزے کے لیے اٹھانے والے صدیوں پرانی روایت کے حامل ایسے ڈھولچیوں کی تعداد میں واضح کمی دیکھی گئی ہے، اب گلیوں اور محلوں میں ڈھول کی تھاپ کے ساتھ اٹھ جا لوگو، سحری کھا کر روزہ رکھ لو کی صدا کم ہی سننے میں ملتی ہے۔
ایسے ہی ڈھولچیوں میں فیصل آباد کے نواحی گائوں کا رہائشی حیدر حسین بھی ہے وہ ہر رمضان کے مہینے میں سحری کے وقت رات کے ڈھائی بجے کے بعد ڈھول بجا کر لوگوں کو اٹھانے کا سلسلہ جاری کیے ہوئے ہے وہ گزشتہ کئی برسوں سے یہ فعل ایک نیکی سمجھ کر کررہا ہے۔
خالی اور ویران گلیوں میں کئی کلومیٹر وہ اپنے ڈھول کو بجاتے ہوئے لوگوں کی توجہ روزہ رکھنے کی جانب مبذول کراتا ہے،جدید دور میں اسمارٹ فون جنریشن ایسی قدیمی روایات کے اتنے گرویدہ نہیں رہے اور نصف شب کو سوتے وقت وہ ڈھول کی تھاپ کو نیند میں خلل بھی محسوس کرتے ہیں۔
ایسی روایات کو زندہ رکھنے کے لیے ماں کو اپنے تربیتی عمل میں پرانے معاشرتی طریقوں کو متعارف کرانے کے لیے اختراعات کی ضررورت ہے۔ ڈھولچی حیدر حسین نے بتایا کہ ڈھولچیوں کی تعداد کم نہیں بلکہ وہ ناپید ہونے لگے ہیں اور ہر سال سحری کے اوقات میں ڈھولچی کم ہو رہے ہیں کیونکہ ان کی پذیرائی کا سلسلہ بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔