کراچی (ڈیسک) سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے چیف الیکشن کمشنر نے سماعت کی۔ سماعت کے موقع پر جماعت اسلامی کی جانب سے حافظ نعیم الرحمن، ایم کیو ایم کے وسیم اختر، پی پی پی کے مرتضیٰ وہاب اور آئی جی سندھ موجود تھے۔
جوائنٹ سیکریٹری وزارت داخلہ نے موقف پیش کیا کہ ملک میں سیلاب اور امن و امان کی ابتر صورت حال کے باعث بلدیاتی انتخابات کے لیے سیکیورٹی فراہم کرنا ممکن نہیں، ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات نوے دن کے لیے ملتوی کیے جائیں۔
سندھ حکومت نے فورسز کی مصروفیات اور عدم دستیابی کو جواز بنا یا اور الیکشن کرانے سے معذوری ظاہر کی۔ ای سی ممبر نثار درانی نے کہا کہ کیا بلدیاتی انتخابات کا مزید التوا آئین کی خلاف ورزی نہیں؟
اسپیشل سیکریٹری نے بتایا کہ وزارت داخلہ اٹھارہ اکتوبر کو مسلح افواج کے اہلکاروں کی فراہمی سے معذرت کر چکی ہے۔
چیف الیکشن نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کی تاریخ کا اعلان الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، اگر سندھ پولیس کے اہلکار اسلام آباد میں ڈیوٹی کر رہے ہیں تو پھرپنجاب پولیس کے اہلکار سندھ میں تعینات کیے جا سکتے ہیں، پنجاب حکومت سے سیکیورٹی فراہمی کی درخواست کر سکتے ہیں۔
سابق میئر ایم کیو ایم وسیم اختر نے موقف پیش کیا کہ مردم شماری میں کراچی کی آدھی آبادی کم کر دی گئی، حلقہ بندیوں میں گڑ بڑ کی گئی، اصلاحات کے بغیر انتخابات بے معنی ہوں گے۔ جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ مردم شماری کے اعتراضات کے لیے الیکشن کمیشن متعلقہ فورم نہیں، اس سلسلے میں سی سی آئی سے رجوع کیا جائے۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم نے کہا کہ آرمی یا ایف سی کو بلا کر کراچی کے بلدیاتی انتخاب کروائے جائیں، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی اتحادی حکومت نے یہ جعلی مردم شماری منظور کی تھی، اب اس کی آڑ میں انتخابات ملتوی کرائے جا رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ 45 روز میں انتخابات کرائے جائیں۔ انتخابات کے لیے 17 ہزار اہلکاروں کی ضرورت ہے جب کہ کراچی میں 40 ہزار اہلکار ہیں۔ سندھ حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ بلدیاتی انتخابات ہوں۔
انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم وفاقی حکومت میں شامل ہے، اتحادی ہے، اختیارات کا رونا رو کر الیکشن سے بھاگنا چاہ رہے ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہم نے وزارت داخلہ کے ذریعے رابطے کیے ہیں مگر آرمی اور رینجرز اسٹیٹک ڈیوٹی کے لیے تیار نہیں۔ انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن فوری بلدیاتی انتخابات کا خواہاں ہے۔ ہم براہ راست حکم جاری کر سکتے ہیں۔ بعد ازاں الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔
