اسلام آباد (ڈیسک) سپریم کورٹ میں انتخابات کے التوا کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بدقسمتی سے کسی کو کوئی شک نہیں کہ اب انتخابات 90دن میں نہیں ہو سکتے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل اس لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ الیکشن تو ہر صورت ہونے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ کیا اس معاملے کو جمہوری طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا تھا ؟کیا ایک بندے کی خواہش پر اسمبلی تحلیل ہونی چاہئے؟
پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ منتخب نمائندے ہوتے ہیں، جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگر وزیرِ اعظم کی اپنی جماعت عدم اعتماد لانا چاہے تو اسمبلی ٹوٹ سکتی ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ تحریکِ عدم اعتماد آ جائے تو اسمبلی تحلیل نہیں ہو سکتی، جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ایک شخص کے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیار پر پارلیمنٹ کو نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ کے اختیار پر پارلیمنٹ بحث کر سکتی ہے، آئین انتخابات کے بنیادی حق میں کسی تاخیر کی اجازت نہیں دیتا، ماضی قریب میں الیکشن میں تاخیر کے لیے کوششیں کی گئیں، الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ وہ تاریخ نہیں دے سکتے، گورنر کہتے ہیں کہ تاریخ دینا میرا اختیار ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اس عدالت کے حکم پر عمل درآمد ہو چکا، اس بنا پر الیکشن شیڈول دیا گیا، سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ صدرِ مملکت کی تاریخ کو بدل دے؟ کیا الیکشن کمیشن 90 دن سے زیادہ کی تاخیر کر سکتا ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتخابات منسوح کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کی 2 شقوں کا سہارا لیا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے وجوہات بتا کر کہا ہے کہ آئینی ذمے داری ادا کرنے سے قاصر ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں قانونی تنازع میں نہیں پڑنا چاہیے، ہم نے سماجی اور سیاسی ڈسپلن کی بحالی بھی کرنی ہے، سپریم کورٹ اچھی نیت کے ساتھ کیس سن رہی ہے، فریقین نے فیصلہ کرنا ہے کہ حالات کو کس طرف لے کر جاتے ہیں، عدالت نے حقیقت کو دیکھ کر آگے بڑھنا ہے، کل بھی کہا تھا کہ قانونی معاملہ خلاء میں حل نہیں کیا جا سکتا۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اسٹیک ہولڈرز ہیں، انہیں لازمی سنا جائے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے فاروق نائیک سے سوال کیا کہ آپ یہ پوائنٹ پارلیمنٹ کیوں نہیں لے جاتے؟
فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ میں معاملہ اٹھانے کا سوچ رہے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ یہ ایک الگ کیس ہے، یکم مارچ کے فیصلے پر میرا جواب ہے کہ قانون صدر کو اختیار دیتا ہے کہ وہ تاریخ دیں، اگر آپ یکم مارچ کے فیصلے پر وضاحت چاہتے ہیں تو الگ سے درخواست دیں، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں؟ اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہو جائے گی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ اگر چار تین کا ہوا تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی، عدالتی حکم نہیں تھا تو صدرِ مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے، یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس وقت مقدمہ تاریخ دینے کا نہیں منسوخ کرنے کا ہے، جمہوریت کے لیے انتخابات ضروری ہیں، 2 معزز ججز نے فیصلہ دیا ہے، ان 2 ججز کی اپنی رائے ہے لیکن اس کا موجودہ کیس سے کوئی تعلق نہیں، ایک سنجیدہ معاملے کو بائی پاس نہ کریں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ کیس میں استدعا ہی فیصلے پر عمل درآمد کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بینچ کے ارکان درخواست میں اٹھائے گئے سوال کا جائزہ لینے بیٹھے ہیں، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار درخواست تک محدود نہیں ہوتا۔
