اسلام آباد(ڈیسک ):سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کے معاملے پر وفاقی وزیر اعظم سواتی مس کنڈکٹ کی تحقیقات کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنا دی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آئی جی اسلام آباد کو عہدے سے ہٹانے پر لیے گئے از خود نوٹس کی سماعت کی۔وفاقی وزیر اعظم سواتی اور غریب خاندان کے درمیان جھگڑے کے بعد فون کال نہ اٹھانے پر مبینہ طور پر آئی جی اسلام آباد کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا جس کے بعد سپریم کورٹ نے انہیں کام جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی۔ عدالت نے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی کے مس کنڈکٹ کی تحقیقات کے لیے سینئر افسران پر مشتمل جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا کہ کمیٹی 14 روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے۔تحقیقاتی ٹیم میں آئی بی کے احمد رضوان، ایف آئی اے کے میر واعظ نیاز اور نیب کی طرف سے بھی ایک آفیسر کا نام دیا جائے گا۔عدالت نے قرار دیا کہ جے آئی ٹی معاملے کی تفصیلی انکوائری کرے گی کہ اعظم سواتی نے بطور وزیر مس کنڈکٹ کیا یا نہیں جب کہ تحقیقاتی ٹیم ان کے اثاثوں کی چھان بین بھی کرے گی۔عدالت نے کہا کہ جے آئی ٹی تحقیق کرے کہ اعظم سواتی کے خلاف امریکا میں کس نوعیت کے مقدمات ہیں اور پتہ لگائے کہ کیا اعظم سواتی امریکا جاسکتے ہیں یا نہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ یہ فیصلہ کن لمحات ہیں کہ کیا طاقت اور دولت کے ساتھ لوگوں کا استحصال ہوسکتا ہے، میرٹ پر تحقیق ہوئی تو ہی پاکستان کے لوگوں کو اداروں پر اعتماد ہوگا، یہ ملک کی خدمت اور آنے والی نسلوں پر احسان ہوگا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ غریب آدمی کسی نہ کسی دباؤ میں آجاتا ہے، متاثرہ خاندان نے تو اعظم سواتی کو معاف کر دیا ہے پر ہم نے معاف نہیں کیا۔انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد جان محمد نے اپنے عہدے پر کام کرنے سے معذرت کرلی جس کے بعد سپریم کورٹ نے آئی جی کے تبادلے کی معطلی کا حکم واپس لے لیا۔کیس کی سماعت کے موقع پر فریق وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی، متاثرہ خاندان، اٹارنی جنرل انور منصور خان اور آئی جی اسلام آباد جان محمد کمرہ عدالت میں موجود تھے۔اس موقع پر آئی جی اسلام آباد جان محمد نے اپنے عہدے پر کام جاری رکھنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان حالات میں کام نہیں کرسکتے اس لیے عدالت سے استدعا ہے تبادلے کے احکامات پر عمل کرنے کی اجازت دی جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہے اگر یہ کہہ رہے ہیں تو اجازت ہے، آپ کی مرضی ہے ہم آپ کو منع نہیں کرتے۔اس موقع پر متاثرہ خاندان کے سربراہ نیاز محمد نے عدالت کو بتایا کہ ہماری صلح ہوگئی ہے، غریب آدمی ہوں، ملک کی عزت خراب نہیں کرسکتا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس میں ملک کی عزت کی خرابی کا کوئی معاملہ نہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ خاندان نے بے شک معاف کردیا ہو، یہ اسٹیٹ کے خلاف جرم ہے، معاملے کی انکوائری کروائیں گے، ایسا فعل ایک طاقتور وزیر نے کیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جرگے میں ہونے والی صلح صفائی کو نہیں مانتے’’وڈا آدمی ہے ، غریباں نوں پکڑوا لیا، مار وی پوائی، جیل وی بھجوایا تے فیر آئی جی وی تبدیل کرا دتا‘‘۔وفاقی وزیر اعظم سواتی کی طرف سے بیرسٹر علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے جن سے مکالمے کے چیف جسٹس نے کہا آپ ہر بڑے بندے کے وکیل بن جاتے ہیں، میں آپ کا لائسنس کینسل کرتا ہوں، بتائیں کتنے عرصے کیلئے لائسنس کینسل کروں۔بیرسٹر علی ظفر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ دو ماہ کیلئے کینسل کردیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہر ناجائز کام کرنے والے کی طرف سے آپ پیش ہوجاتے ہیں۔بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اعظم سواتی صاحب کو اپنے کیے پر بہت افسوس ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا اگر انہیں افسوس ہے تو عہدے کو چھوڑ دیں، عہدے کی طاقت سے اعظم سواتی نے یہ کام کیا، غریب خاندان پر ظلم کرنے کے بعد پیسے دیکر صلح کرلی، اب انہیں افسوس بھی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہم معاملے پر ایف آئی اے، نیب اور آئی بی کے افسران پر مشتمل جے آئی ٹی بنائیں گے، اٹارنی جنرل صاحب آج ہی نام دئیے جائیں ہم خود افسران منتخب کریں گے۔بیرسٹر علی ظفر نے دلائل میں کہا اعظم سواتی کی صلح ہوچکی ہے اور اسلامی قوانین کے مطابق ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسلامی قوانین اللہ کا تحفہ ہیں، جہاں پر آپ پھنس جاتے ہیں وہاں آپ اسلامی قوانین کو لے آتے ہیں اسلامی اصول یہ بھی ہے کہ اگر انہیں افسوس ہے تو اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں، کسی وزیر کو اس طرح غریب خاندان کو کچلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔چیف جسٹس پاکستان نے متاثرہ بچے سے واقعہ کی تفصیل سنی اور کہا کہ یہ مس کنڈکٹ کا کیس ہے، عدالتیں کمزور یا ماڑی نہیں ہیں، کیا یہ وزیر اس ملک کے مالک ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہر کیس میں آئی ایس آئی کو نہیں ڈالنا چاہتا، دیگر متعلقہ اداروں سے انکوائری کرائیں گے۔چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد جان محمد کو حکم دیا کہ جھگڑے کے واقعہ کی تحقیق کریں اور جو مقدمہ بنتا ہے درج کریں، مجھے یہ آج ہی چاہیے، وزیر کے ساتھ وہی سلوک کریں جو عام آدمی کے ساتھ ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اعظم سواتی آپ نے ایک خاندان کی روزی بند کردی، یہ ہے آپ کی دیانت داری، کہتے ہیں تو ابھی 62 ون ایف لگا دیتے ہیں۔
(این این آئی)